پشاور ہائی کورٹ نے مشرف کے الیکشن لڑنے پر تاحیات پابندی لگا دی
پشاور (ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ) پشاور ہائی کورٹ نے سابق صدر مشرف کی جانب سے اپنی نااہلی کے خلاف دوبارہ اپیل خارج کرتے ہوئے ان پر تاحیات انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی ہے۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں 4 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت لارجز بنچ نے پرویز مشرف کی جانب سے چترال کے حلقہ این اے 32 سے اپنی نااہلی کے خلاف دائر اپیل خارج کرتے ہوئے انہیں عمر بھر کے لئے انتخابات کے لئے نااہل قرار دے دیا ہے۔ سماعت پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں چار رکنی بنچ نے کی۔ مشرف کی طرف سے احمد رضا قصوری ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ عدالت میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سندھ ہائیکورٹ نے اکیس جولائی دو ہزار نو کے چودہ ججوں کے فیصلے میں پرویز مشرف پارٹی نہیں تھے۔ عدالت کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے پی ایل ڈی کے صفحات نمبر سات، آٹھ ،نو کو بنیاد بناتے ہوئے پرویز مشرف کے اقدام کو غیرآئینی قرار دیا تھا۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پرویز مشرف نے دو مرتبہ آئین توڑا اور ججوں کو ان کے بچوں سمیت نظر بند کیا، جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔پرویز مشرف قومی اسمبلی اورسینٹ سمیت کسی قسم کے انتخابات نہیں لڑسکتے۔ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 6 میں موجود ابہام کو دور کرے۔ اگر آرٹیکل 6 میں ترمیم نہ کی گئی تو موجودہ فیصلہ کسی بھی آمر کا ساتھ دینے والوں پر بھی لاگو ہوگا اور ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے این اے 32 چترال سے پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی کی منظوری کے خلاف اعتراض پر انہیں نااہل قرار دے دیا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنی نااہلی کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ رائٹر کے مطابق ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی شہری کے الیکشن لڑنے پر تاحیات پابندی عائد کی گئی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق مشرف کے ترجمان ڈاکٹر امجد نے کہا ہے کہ ہم اس فیصلے کو چیلنج کریں گے اور اس کےخلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔ دوسری جانب انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر فارم ہاﺅس سب جیل بھجوا دیا۔ منگل کو ایف آئی اے کی مشترکہ انکوائری ٹیم نے پرویز مشرف سے 4 روز تک تفتیش کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج حبیب الرحمان کو بتایا کہ سابق صدر کو بے نظیر قتل میں باضابطہ ملزم قرار دے دیاگیا ہے، ایف آئی اے کی مشترکہ تفتیشی ٹیم کے روبرو سابق صدر اپنی صفائی میں ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکے۔ایف آئی اے کی ٹیم نے کہاکہ بے نظیر کو سکیورٹی فراہم کرنا پرویز مشرف کی ذمہ داری تھی، سابق ڈی جی آئی بی بریگیڈئر اعجاز شاہ، سابق ترجمان وزارت داخلہ بریگیڈئر جاوید اقبال چیمہ، 2 امریکی صحافی مارک سیگل، رون سٹنڈ کے بیانات، بے نظیر کی ای میل پرویز مشرف کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں، مقدمے میں 4 دفعات شامل کی گئیں ہیں جن میں بے نظیر بھٹو کو قتل کی دھمکیاں دینا، قتل کی مجرمانہ سازش تیار کرنا، قتل میں معاونت کرنا اور دہشت گردی کا جرم کرنا شامل ہیں۔انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایف آئی اے کی طرف سے پرویز مشرف کا مزید جسمانی ریمانڈ نہ لینے پر سابق صدر کو 14 روز کےلئے جیل بھجوا دیا، سابق صدر یہ مدت سب جیل قرار دیئے گئے اپنے فارم ہاﺅس پر ہی گزاریں گے، سابق صدر کو سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔پراسیکیوٹر ایف آئی اے چوہدری ذوالقفار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر قتل کیس کی سماعت 3 مئی کو ہونا ہے اور اسی روز سابق صدر کے خلاف چالان بھی پیش کردیا جائے گا۔ چوہدری ذو الفقار نے بتایا کہ پرویز مشرف نے ریمانڈ کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ساتھ تعاون نہیں کیا، پرویز مشرف الزامات کا ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکے،بے نظیربھٹوکو سکیورٹی فراہم کرنا پرویزمشرف کی ذمہ داری تھی دوسروں پر ذمہ داری ڈال کر پرویز مشرف بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ دوسری جانب پرویز مشرف کے وکیل جانب سے گزشتہ سماعت کے دوران جائیداد ضبطگی اور اکاﺅنٹ بحال کرنے کی درخواست پرسماعت نہ ہو سکی۔