مشرف غداری کیس: بادشاہی دور ختم‘ آئین توڑنے والے کو سزا سے ملکی سلامتی خطرے میں نہیں پڑیگی: جسٹس حلجی
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اب بادشاہوں والے دور ختم ہوگئے ، اب جو کرے گا اس کو بھگتنا بھی پڑے گا۔ آئین توڑنے والے کو سزا دینا صرف ہماری ہی ذمہ داری نہیں وفاق کا بھی فرض ہے ۔ کسی کو آئین توڑنے کی ایک بار پھر اجازت نہیں دے سکتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جس کے دل میں کوئی خوف ہے تو وہ نکال دے ۔ آئین توڑنے والوں کو سزا دینے سے ملکی سلامتی خطرے میں نہیں پڑیگی۔ جب آئین کہہ رہا ہے کہ آئین توڑنے والے کو سزا ملنی چاہیے، وفاق سزا دینے کو تیار نہیں تو کیا آئین کے محافظ ہونے کے ناطے یہ عدالتوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ایسے ملزم کو سزا دے جس نے چوری کی ہے اس کیخلاف پرچہ درج کرانے کا ہائیکورٹ حکم جاری کرسکتی ہے تو آئین توڑنے والے کیخلاف کارروائی کے لئے کیوں نہیں کہہ سکتی۔ مشرف کے وکیل ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عدالت انتظامی اختیارات اپنانے کی بجائے معاملہ وفاق پر چھوڑ دے ، عدالت نے 3نومبر 2007ءکے کیس میں پرویز مشرف کو ازخود نوٹس جاری کیا درخواست گزاروں نے فریق نہیں بنایا تھا ۔ مشرف کو سزا نہ دینے کے 31 جولائی 2009ء کے فیصلے کے بعد 14 رکنی بینچ کے کسی ر کن ، کسی دوسرے جج نے نوٹ نہیں لکھا اور نہ ہی درخواست گزاروں نے سزا دلوانے کا پیراگراف شامل کرانے کیلئے 38یوم کے اندر کوئی نظر ثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی۔ عدالت کسی قسم کی کوئی آبزرویشن، ڈائریکشن اور فیصلہ نہ دے کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو یہ میرے موکل کے ماتحت عدلیہ کے ٹرائل پر براہ راست اثر انداز ہوگا۔ ابراہیم ستی نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرا موقف ہے کہ سنگین غداری کے مقدمے کا حکم دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے جبکہ اگر خود وفاق مناسب سمجھے تو وہ فیصلہ کرسکتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ابراہیم ستی سے استفسار کیا کہ پرویز مشرف ملک سے کب باہر گئے تھے؟ جس پر ابراہیم ستی نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف 15 اگست 2008ءکو ملک سے باہر گئے تھے۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ابراہیم ستی صاحب آپ کہتے ہیں عدالت کچھ نہ کرے، معاملہ انتظامیہ پر چھوڑ دے۔ حکومت کچھ نہیں کرتی اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں عدالت کیا کرے؟ عدالت نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ایک شخص آئین پامال کرتا رہا، آئین کہتا ہے کہ ایسے شخص کو سزا دو، ماضی کے عدالتی فیصلوں کو بھول جائیں، سمجھیں کہ کوئی فیصلہ نہیں، صرف آرٹیکل 6 کو دیکھیں اور بتائیں کہ عدالت کیا کرے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہمارے نزدیک ہر کیس اہم ہے، عدالت نہیں دیکھے گی کہ سامنے کون کھڑا ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ عدالت پرویز مشرف کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا معاملہ وفاق پر چھوڑ دے۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دئیے عدالت کیس بھی کیس کا مقدمہ درج کرنے کا تو کہہ سکتی ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا سپریم کورٹ کے 15 جج بھی کسی کو سزائے موت سنا دیں تو صدر معاف کرسکتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے سرکار معاف کرتی ہے یا نہیں، یہ اسکا کام ہے۔ ہمارے لئے انصاف کی دیوی اندھی ہوتی ہے جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دئیے کہ ضابطہ فوجداری کے جرم اور آئین پامال کرنے کے جرم میں فرق ہے، جہاں آئین خود کہہ رہا ہے اس میں معافی نہیں ہوتی۔ بہرحال یہ موضوع ہمارے سامنے نہیں ہے۔ سرکار نے تو اتنا کہا کہ وہ انتخابات کرانے میں مصروف ہے۔ ابراہیم ستی نے عدالت میں اپنے دلائل مکمل کرلئے جس پر کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔ پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے مداخلت کی تو موکل کا مقدمہ متاثر ہوگا۔ تاثر دیا جا رہا ہے کہ عدالت مشرف کیخلاف فریق بنی ہوئی ہے۔