• news

محفلیں اہل ذوق کی

آج مجھے اپنی کولیگ کالم نگار شاعرہ خالدہ بی بی اور سعدیہ قریشی کے کہنے پر جگر کے کینسر میں مبتلا برادرم اسد علی کے لئے اپیل کرنا ہے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لئے ایک وضاحت کی تائید کرتا ہوں مگر سب سے پہلے وقار اور اعتبار کی پیکر نوجوان خاتون رہنما مریم نواز کا یہ جملہ آپ تک پہنچانا ہے وہ خود مسلم لیگ نواز شریف سے تعلق رکھتی ہیں اور نواز شریف کی صاحبزادی ہیں ان کی پہچان کیپٹن صفدر سے شادی کے بعد بھی اپنے والد کے ساتھ ہے۔ کیپٹن صفدر ایم این اے رہے ہیں حمزہ شہباز بھی نوجوان سیاستدان نہ بن سکے تو مریم نواز ایک موثر کردار ادا کرنے کے لئے میدان میں آ گئیں انہوں نے وقت نیوز کے ایک انٹرویوکے دوران بتایا بے نظیر بھٹو میری آئیڈیل ہیں وہ یہ بات پہلے بھی کئی بار کہہ چکی ہیں یہ ایک مخالف پارٹی کی لیڈر خاتون کا اعلان ہے اور قابل تعریف ہے اگر ہمارے سیاستدانوں میں یہ وضعداری رواداری عام ہو جائے تو جمہوریت واقعی ایک قابل قبول نظام حکومت ہو گا میں عام لوگوں کے ساتھ ہوں میں محکموم لوگوں میں سے ہوں جو مظلوم بھی ہیں۔ میں برے حاکموں پر لعنت بھیجتا ہوں جو ظالموں سے بھی دو قدم آگے ہیں اور ظالم بزدل بھی ہوتا ہے عام لوگوں کو جمہوریت اور آمریت دونوںنے کچھ نہیں دیا۔
مریم نواز کی ماں کلثوم نواز نے اپنے شوہر اور خاندان کے لئے تحریک جمہوریت چلائی تھی جو بعد میں جلاوطنی کی منزل پر ختم ہوئی ہم کلثوم نواز کے ساتھ تھے کاش وہ اپنے مردوں کو سمجھا سکیں کہ جلاوطنی اور ہم وطنی کے فرق کو دور کریں۔ ہمارے لئے ہم وطنی بہت زیادہ تکلیف دہ جلاوطنی بن چکی ہے۔ مریم نواز کے اس جملے نے میرے دل میں اطمینان کے پھول کھلا دیئے ہیں۔ یہ سیاسی رواداری کی بہترین مثال ہے جن کا دل شاعر کا ہوتا ہے وہ سیاستدان کیسے بن جاتے ہیں۔
مجھے لفظ و خیال سے تعلق رکھنے والی خالدہ بی بی نے فون کیا اور پھر خوبصورت نثر لکھنے والی سعدیہ قریشی نے تفصیل سے گفتگو کی۔ میرے کالم کی نوعیت سیاسی ہے مگر غیر سیاسی زندگی زیادہ خوبصورت ہے اس خوبصورت زندگی میں کبھی کبھی بڑی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سعدیہ نے بتایا کہ اسد علی اس کے بھائی نوید قریشی کے دوست ہیں وہ جگر کے کینسر میں مبتلا ہیں وہ اس موذی مرض کی آخری سٹیج پر موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔ وہ جواں عمر ہیں۔ ان کے تین بچے ہیں۔ ان کی اہلیہ سمیرا زندگی کے مشکل دنوں میں اپنے شوہر سے زیادہ درد و غم کے راستوں پر بھٹکتی پھرتی ہیں۔ دونوں کا فون نمبر 03055008361 ہے۔ اسلام آباد کے معروف انٹرنیشنل ہسپتال ایف 10کے پروفیسر ڈاکٹر مظفر لطیف گل ستارہ امتیاز نے انہیں بیرون ملک فوری طور پر علاج کے لئے جانے کی ہدایت کی ہے۔ بھارتی ڈاکٹر گپتا سے اپالو ہسپتال نیو دہلی میں ان کا رابطہ ہو چکا ہے 15مئی تک ہر صورت ہسپتال پہنچنے کی تلقین کی گئی ہے۔50 لاکھ روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ دونوں میاں بیوی اور نوید قریشی نے مختلف طریقوں سے تیس لاکھ جمع کر لیا ہے اب بھی وہ نئی زندگی کے انتظار میں آسمان کی طرف اور روشنی سے بھرے ہوئے دل والے لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اللہ اور اللہ کے بندے ان کو زندہ لوگوں کے جہان میں لے آئیںمیری اپیل ان لوگوں سے ہے جن کا دل شاعر کا اور دماغ سیاستدان کا ہوتا ہے۔ جن کے پاس دولت ہے اور دل بھی دولت بھی ہے۔ ان کا اکاﺅنٹ نمبر ہے: 104590001بنک آف پنجاب تلہ گنگ روڈ، چکوال۔
پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے یہ وضاحت ایثار رانا نے شائع کروائی ہے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے ایک سیاسی شخصیت غالباً خواجہ احمد حسان کو اپنے گھر ناشتے پر بلایا ہے۔ اس طرح کا جھوٹا پروپیگنڈا بھی انتخابی مہم کے زمرے میں آتا ہے پنجاب یونیورسٹی مادر علمی ہے۔ علمی پس منظر والے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کوشش کر رہے ہیں کہ مادر علمی اور مادر وطن کی سرحدیں ملا دی جائیں۔ ان کا ایک اقدام تو بہت خوبصورت ہے اور صحافت کے سب سے بڑے ایڈیٹر بہادر انسان مجید نظامی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی جسے بہت ممتاز اور جینوئن لوگوں نے ایک کارنامہ قرار دیا ہے پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے یہ بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ ہمیشہ اچھی قیادت اور علمی شخصیات یونیورسٹیوں سے معاشرے میں جاتی ہیں پنجاب یونیورسٹی پاکستان کی سب سے قدیم اور عظیم یونیورسٹی ہے۔ یہاں ایسا ماحول بنایا جا سکتا ہے کہ ہر شعبے میں اعلیٰ دل و دماغ کے لوگ بھیجے جائیں مگر تعلیمی اداروں اور یونیورسٹی میں اساتذہ کی گروپنگ اور رقابت نے بدنامی اور ناکامی کا ماحول بنا دیا ہے جس کے نقصانات آئندہ نسلوں پر بھی پڑیںگے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ پنجاب یونیورسٹی کو اس دلدل سے نکلنے میں مدد کریں۔ صبر و عمل اور ربطہ و ضبط کا مظاہرہ کریں علم تو حلم پیدا کرتا ہے۔ علم کے تکبر سے بچنے کے لئے تخلیقی تدبیر کی بڑی ضرورت ہے اور اس کا سیاست سے دور کا تعلق نہیں ہے۔
آج کل پنجاب یونیورسٹی میں ایک تعلیمی اور تخلیقی ماحول بنانے کی کامیاب کوشش جاری ہے۔ پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی میں بلوچستان کے طالب علموں کے اعزاز میں ایک بہت شاندار تقریب ہوئی جس کے مہمان خصوصی لاہور کے سابق ڈی سی او نورالامین مینگل تھے۔ ان کا تعلق بلوچستان سے ہے الیکشن 2013ءکے لئے ان کا تبادلہ بھی کر دیا گیا ہے۔ان کے زمانے میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا رسالہ ”لاہور“ ڈاکٹر ندیم گیلانی کی ادارت میں بہت مقبول رسالہ بن گیا تھا اس کا کریڈٹ ندیم گیلانی کو ہی جاتا ہے وہ خود ایک شاعر ادیب ہے سرکاری طور پر ڈائریکٹر پبلک افیئرز ہے۔ انہوں نے ہی ادیبوں شاعروں کے لئے ادبی ڈیرے پاک ٹی ہاﺅس کی بحالی میں سرکاری کردار ادا کیا۔ اس میں ایک شکوہ بھی ہے کہ یہ معاملہ سیاسی بن گیا تھا میرے خیال میں نواز شریف کو اس کا افتتاح نہیں کرنا چاہیے تھا وہ تھوڑی دیر کے لئے سیکورٹی اور پروٹوکول کے ساتھ یہاں آئے انہیں شان و شوکت کے بغیر یہاں آنا چاہیے تھا وہ ادیبوں شاعروں کا فین بن کر آتے یہاں سیاستدان کے طور پر آنا مناسب نہ تھا بہرحال یہ جگہ ادیبوں کے لئے تیار ہوئی ہے جس پر اکیاسی لاکھ لٹا دیئے گئے مگر قبضہ ابھی غیر ادیبوں کا ہے۔ اب یہ تھری سٹار ہوٹل ہے اسے ادیبوں کا ایک مرکز بنانے میں وقت لگے گا۔ ابھی یہاں حلقہ ارباب ذوق کے ہفتہ وار اجلاس شروع نہیں ہو پائے۔ میں حلقے کا سیکرٹری رہا ہوں مجھے نہ بلائے جانے کا افسوس نہیں ہے حلقے کے سارے ممبران کو دعوت دینا چاہیے تھی۔نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی پاک ٹی ہاﺅس کی ادبی حیثیت بحال کروائیں وقت نیوز کی طرف سے امیر عباس نے ایک بہت اچھا پروگرام کیا تھا۔
پنجاب یونیورسٹی سے نکل کر بات پاک ٹی ہاﺅس کی طرف چلی گئی مینگل صاحب یونیورسٹی میں ایک قومی نوعیت کے پروگرام میں ہر آدمی سے ملنے ان کے پاس گئے۔ بلوچستان کے طلبہ ڈاکٹر مجاہد کامران چوہدری اکرم ایثار رانا خواجہ عمران ناصر اقبال کرنل اکرام اللہ ان کے ساتھ تھے۔ مجھ سے ملے تو کہا میں آپ کا غائبانہ مرید ہوں۔ افسران سے غائبانہ ہی دوستانہ مراسم اچھے ہوتے ہیں ان کی جگہ سید رضوان محبوب آئے ہیں ان کی توجہ الیکشن پر ہے اور وہ پروٹوکول کے قائل نہیں ہیں افسران جب حکمران کے لئے پروٹوکول کے قائل نہیں رہیں گے تو بات بنے گی۔
برادرم ندیم گیلانی ان کے بہت معترف ہیں اس تقریب کے حوالے سے بلوچستان کے لئے ایک اچھا پیغام ملا بلوچستان کے نوجوان پاکستان کے بیٹے ہیں ہم ان کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی نے پورے پاکستان کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔
دوسری تقریب ایک مہمان گلوکار محمد رفیع کے بھائی محمد صدیق کے لئے تھی اس تقریب کو شام کا نام دینا چاہیے یہ بڑی سہانی سوہنی سانولی شام تھی یہ شام اور تیرا نام دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں۔ اکیاسی سال کے شاندار جوان محمد صدیق نے بتایا کہ مسٹر گاندھی محمد رفیع کو مہاراج کہہ کر بلاتے تھے۔ ایک دفعہ محمد رفیع نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ جناب گاندھی صاحب آپ مجھے محمد رفیع کہہ کر بلائیں گے تو میرا دل خوش ہو جائے گا مجھے رفیع صاحب بھی نہ کہیں میرے نام سے پہلے محمد لگا لیا کریں۔ محمد رفیع ۔ اس کی آواز میں ایک گداز تھا اور کوئی راز بھی تھا وہ آواز کا راز تھا جس کا تعلق زبان سے زیادہ دل کے ساتھ ہے محمد صدیق نے آواز اٹھائی تو جیسے وقت ٹھہر گیا۔ سب سننے والے خواتین و حضرات سرمست اور سرشار ہو گئے۔ میری عمر کے کئی لوگ بڑے جذبوں کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیتے۔ ڈاکٹر راس مسعود نے بھی محمد صدیق اور محمد رفیع کے لئے اچھی باتیں کیں۔ اسرار چشتی نے اپنے عظیم والد اعظم چشتی کی یاد چاروں طرف بکھیر دی۔ یونیورسٹی کی محفلوں میں کبھی کسی سیاسی شخصیت کو خاص طور پر نہیں دیکھا گیا یہاں صاحبان ذوق ہوتے ہیں اور صاحبان دل و دماغ۔ علم کی دولت اور دل کی دولت ایک وجود میں آ جائے تو زندگی وجد کرنے لگتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن