سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی آخری کوششیں
انتخابی مہم کے اختتام میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے لیکن ایک طرف ابھی تک انتخابات کے انعقاد میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے کوششوں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے اس واضح اعلان کے بعد کہ ”انتخابات 11 مئی کو ہوں گے کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے“ توقع کی جانی چاہیے کہ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات کے بادل چھٹ جائیں گے اور مشکل حالات کے باوجود عام انتخابات وقت پر ہوں گے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں کاوشیں اگرچہ تاخیر سے دوبارہ شروع ہو رہی ہیں لیکن اس لحاظ سے بروقت قرار دی جا سکتی ہیں کہ خصوصاً سیاسی‘ دینی و مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کو اب پتہ چل گیا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ ایسے مرحلے میں وفاق المدارس پاکستان کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری نے انکشاف کیا ہے کہ جے یو آئی‘ متحدہ دینی محاذ‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماءپاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور اس ضمن میں ایک باقاعدہ اجلاس ہو چکا ہے‘ دوسرا اجلاس آج متوقع ہے۔ ان مذاکرات کی کامیابی کیلئے قاری محمد حنیف جالندھری کراچی‘ اسلام آباد اور لاہور کے مسلسل دورے کرتے رہے ہیں۔ ان کا م¶قف ہے کہ دینی جماعتوں کے ووٹ بنک کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے علماءکرام کا متحرک ہونا ضروری ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ضلع ملتان میں تقریباً تمام نشستوں پر جمعیت علماءاسلام (ف)‘ متحدہ دینی محاذ‘ جمعیت علماءپاکستان‘ جماعت اسلامی کے امیدوار موجود ہیں۔ چند نشستوں پر امیدواروں نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی ہے۔ کچھ نشستوں پر ان جماعتوں کے امیدوار متحرک بھی ہیں اور اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ضلع بھر کی 6 قومی اور 13 صوبائی نشستوں میں سے صرف ایک آدھ سیٹ ہی ایسی ہے جہاں مقابلے کی دوڑ میں ان جماعتوں کا کوئی امیدوار شامل ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ دردمند علماءکرام نے اپنی کوششوں کا آغاز کیا ہے جس کے پس منظر میں یہ سوچ بھی کارفرما ہے کہ دینی جماعتیں خود کو ایکسپوز ہونے سے بچائیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ضلع ملتان میں ایم کیو ایم‘ پاکستان سرائیکی پارٹی‘ سرائیکی قومی موومنٹ‘ آل پاکستان مسلم لیگ‘ مستقبل پارٹی‘ پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ‘ تحریک تحفظ پاکستان کے علاوہ وہ امیدوار بھی ابھی تک میدان میں ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی سے ٹکٹ کے حصول کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ ٹکٹ نہ ملا تو آزاد حیثیت میں امیدوار بن بیٹھے جبکہ آزاد اور شوقیہ امیدواروں کی فوج ظفر موج بھی الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ جن میں سے کئی بڑی سنجیدگی سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے بھی بعض امیدواروں کی حمایت کے اعلانات کئے گئے ہیں۔ اسی طرح ملک کی معروف درگاہوں کے سجادہ نشینوں نے بھی اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی فہرستیں جاری کی ہیں۔ یہ منظرنامہ عام ووٹر کو کنفیوژ کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ملتان شہر میں ابھی تک کسی قومی جماعت کے سربراہ نے جلسہ عام سے خطاب نہیں کیا اس لئے جوش و خروش میں وہ تیزی نظر نہیں آ رہی جو عام انتخابات کے انعقاد سے آٹھ نو روز قبل نظر آنی چاہیے تھی۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کل یعنی 3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 6 مئی کو ملتان شہر میں عام جلسوں سے خطاب کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کارنر میٹنگز سے تو خطاب کیا ہے لیکن ملتان سمیت پورے جنوبی پنجاب میں انہوں نے بھی کسی جلسہ عام سے تاحال خطاب نہیں کیا۔ ایم کیو ایم نے جنوبی پنجاب کی تقریباً تمام قومی و صوبائی نشستوں پر امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔ ان کی جانب سے رابطہ کمیٹی کے رکن رضا ہارون نے ملتان کا تین روزہ دورہ کیا ہے اور ابھی دوبارہ بھی آئیں گے لیکن ان کا دورہ زیادہ تر انتظامی نوعیت کا تھا۔ انہوں نے امیدواروں کی انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا لیکن ایم کیو ایم کے زیرانتظام بھی کوئی جلسہ عام منعقد نہیں ہوا۔ الیکشن 2013ءکی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ موروثی سیاست کے خلاف شور و غوغا کے باوجود سیاسی خانوادوں نے اپنی نئی نسل کو انتخابات میں اِن رکھا ہوا ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کے تین صاحبزادے سید عبدالقادر گیلانی‘ سید علی موسیٰ گیلانی‘ سید علی حیدر گیلانی‘ ان کے بھائی سید احمد مجتبیٰ گیلانی‘ ان کے بھانجے سید اسد مرتضیٰ گیلانی امیدواروں کی صف میں شامل ہیں۔ مرحوم سینیٹر محمد اکرم خان بوسن کے قریبی عزیز ملک سکندر حیات بوسن اور ان کے بھائی ملک شوکت حیات بوسن‘ سابق ایم این اے رانا تاج احمد نون کے قریبی عزیز رانا قاسم نون‘ رانا سہیل نون‘ رانا اعجاز نون‘ مرحوم سید فخر الدین شاہ خاندان سے سید جاوید علی شاہ اور سید مجاہد علی شاہ‘ مرحوم سینیٹر ملک صلاح الدین ڈوگر کے صاحبزادے ملک عامر ڈوگر اور ملک عدنان ڈوگر کے نام قابل ذکر ہیں۔ موروثی سیاست کے بارے میں سب سے زیادہ مخالفت تحریک انصاف کی جانب سے سامنے آئی تھی جبکہ پارٹی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود حسین قریشی کے صاحبزادے مخدوم زادہ زین قریشی بھی کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے مرحلے تک انتخابی مراحل میں شامل رہے۔ ان کے بھائی مخدوم زادہ مرید حسین قریشی پیپلز پارٹی کی جانب سے امیدوار ہیں۔ پارٹی کے صدر مخدوم محمد جاوید ہاشمی قومی حلقہ سے جبکہ ان کی صاحبزادی میمونہ ہاشمی صوبائی حلقہ سے امیدوار ہیں۔ انتخابی مہم کے اعتبار سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کچھ بجھی بجھی سی ہے اور وہ جوش و خروش نظر نہیں آ رہا جو اس پارٹی کی شناخت رہا ہے۔ ایم کیو ایم‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماءپاکستان‘ جمعیت علماءاسلام اور سرائیکی پارٹیاں اپنا اپنا وجود منوانے کے لئے کوشاں ہیں۔