• news
  • image

اتحادی حکومت اور صدر زرداری کا وزیراعظم

منظور وٹو جوڑ توڑ کے ماہر ہیں ماہر تھے۔ صدر زرداری بھی ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ کبھی کبھی وہ بات اب بھی بہت گہری بہت پتے کی کر جاتے ہیں۔ وہ اگر یہ کر جاتے کہ گجرات میں چودھری احمد مختار کو چودھری پرویزالٰہی کے حق میں بٹھا دیتے تو کمال ہو جاتا۔ احمد مختار بے چارہ بے اختیار آدمی ہے۔ انہیں وزیر بننا ہے تو وہ سنیٹر بن کے بھی وزیر شذیر بن سکتے ہیں مگر؟ منظور وٹو کو اصلی جیالے نامنظور وٹو کہتے ہیں۔ میں پھر بھی ان کا قائل ہوں اور برادرم منیر احمد خان کی ان کے لئے کئی باتوں سے متفق ہوں۔ جب وہ پنجاب اسمبلی میں صرف اٹھارہ سیٹوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ بن بیٹھے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے 98 ممبر تھے۔ میری یہ بات وٹو صاحب کو پسند آئی تھی ہمیشہ ندی نالے دریاﺅں میں گرتے ہیں یہاں دریا نالے میں گر پڑا ہے۔ وٹو صاحب نے پانی کناروں سے باہر نہ اچھلنے دیا۔ کاش وہ اسے گندا نالہ بننے سے بھی بچا لیتے۔
منظور وٹو صاحب نے کہا کہ صدر زرداری ہوں اور وزیراعظم عمران خان ہو۔ مگر عمران نے صدر زرداری سے حلف نہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن اگر ایسی نوبت آئی تو عمران صدر زرداری سے حلف لے گا۔ نواز شریف نے تو کہہ دیا ہے کہ میں صدر زرداری سے حلف لوں گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ کالی پٹی باندھ لیں گے۔ ان کے وزیروں نے صدر جنرل مشرف سے کالی پٹی باندھ کر حلف لے لیا تھا۔ اس حلف تک تو زرداری صاحب صدر ہوں گے۔ انہیں یقین ہے کہ اگلے پانچ سال بھی وہ صدر ہوں گے اگر ”جمہوریت“ چلانا ہے تو پھر صدر زرداری کو ماننا پڑے گا؟ انہوں نے اس جمہوریت میں خود کو منوایا ہے بلکہ اپنا لوہا منوایا ہے۔ نواز شریف کو بھی صدر زرداری کی حمایت کرنا پڑے گی۔ اگر الیکشن ہو گیا تو ہنگ پارلیمنٹ میں اتحادی حکومت ہو گی۔ اتحادی حکومت صرف صدر زرداری چلا سکتے ہیں۔ نواز شریف تو اتحادی حکومت پانچ مہینے بلکہ پانچ ہفتے نہیں چلا سکتے۔ وہ اقتدار میں شراکت برداشت نہیں کر سکتے۔ کسی پوزیشن میں نہیں بلکہ اپوزیشن میں بھی شیئر نہیں کر سکتے۔ پنجاب حکومت میں پیپلز پارٹی کو برداشت نہ کیا۔ وفاق میں بھی الگ ہو گئے۔ حکومت میں شرکت ایک شریکہ ہے۔ پنجاب والے شریکے کو دشمنی سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں۔ جمہوریت کو انتقام سمجھتے ہیں اور انتقام صرف کمزوروں سے لیا جاتا ہے اور کمزور صرف عام لوگ یعنی عوام ہیں۔ سیاستدانوں کو اب الیکشن کے موقعے پر یاد آیا کہ پچھلے پانچ سال لوگوں سے انتقام لیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ شریف برادران پنجاب کے حکمرانوں کو انتقام لینے والوں میں سے نہیں سمجھتے۔ وہ حکمران نہ تھے خادم تھے۔ کاش ہمارے حکمران اس مصرعے کا مطلب جانتے ہوتے کہ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد۔ جو خادم ہوا وہی مخدوم ہوا۔ سیاست بھی خدمت ہے مگر ہمارے سیاستدان سیاست کا مطلب حکومت سمجھتے ہیں۔ پچھلے پانچ سال کی جمہوریت بہت زبردست تھی۔ ہر پارٹی حکومت میں بھی تھی اور اپوزیشن میں بھی تھی۔
وزیراعظم بننے کے جنون میں عمران خان صدر زرداری سے حلف ضرور لے گا مگر وزیراعظم بن کے کچھ نہیں کر سکیں گے۔ پھر کبھی وزیراعظم نہ بن سکیں گے۔ میں نے بینظیر بھٹو کے لئے لکھا تھا کہ 1988ءمیں وہ صدر اسحاق کی طرف سے وزیراعظم کی نامزدگی قبول نہ کرتیں تو پھر بہت جلد ایسی وزیراعظم بنتیں کہ کوئی ان کی حکومت توڑ نہ سکتا۔ وہ دوسری بار بھی تقریباً اسی طرح وزیراعظم بنی تھیں۔ تیسری بار اس طرح وزیراعظم بننا انہیں قبول نہ تھا تو وہ شہید بن گئیں۔ نواز شریف بھی صرف اسی طرح تیسری بار وزیراعظم بن سکتے ہیں جس طرح پہلے دو دفعہ بنے تھے اور وہ اس کے لئے تیار ہیں۔ صدر زرداری سے حلف لینے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ مگر نجانے وزیراعظم کون ہو گا۔ ہمارے سیاستدانوں کی سیاسی حمیت یہ ہے کہ انہوں نے ایک غیر سیاسی امریکہ میڈ شوکت عزیز کو بھی وزیراعظم قبول کر لیا تھا۔
منظور وٹو غالباً کہنا یہ چاہتے تھے کہ کسی کے ساتھ بھی اتحاد ہو سکتا ہے حتیٰ کہ عمران خان کے ساتھ بھی اتحاد ہو سکتا ہے۔ انہوں نے چودھری برادران سے بھی اتحاد کر لیا کہ نواز شریف نے ان کے چمچوں کو اپنا لوٹا بنا لیا مگر انہیں گلے نہ لگایا۔ اب ان لوٹوں کو ٹکٹ بھی نہیں دیا
تفو برتُو اے چرخ گردوں تفو
میں اس کا اردو ترجمہ نہیں کروں گا۔ اس طرح توہین حکومت یا توہین جمہوریت ہو جائے گی اور یہ توہین عدالت سے بڑا جرم ہے۔ وہاں معافی ہے یہاں معافی نہیں ہے۔ مجید نظامی کی ایک مسلم لیگ بنانے کی خواہش بھی توڑ دی گئی۔ یہ ہوتا تو پنجاب میں ہی نہیں مرکز میں بھی مسلم لیگ کی حکومت ہوتی۔ چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور چودھری شجاعت وزیراعظم تھے تو پھر کیسے اتحاد ہوتا
الیکشن کی گہما گہمی گرما گرمی صرف پنجاب میں ہے۔ باقی تینوں صوبوں میں الیکشن نہ ہونے کی طرح ہو رہے ہیں۔ پنجاب میں عمران خان اور شریف برادران کا مقابلہ ہے۔ دونوں کم و بیش برابر برابر نشستیں لے جائیں گے۔ باقی تینوں صوبوں میں دونوں نہیں جا رہے۔ ان تین صوبوں میں کون جیتے گا۔ یہ سب جانتے ہیں تو پھر اتحادی حکومت کون بنائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن نہیں ہو گا مگر اب کچھ کچھ لگتا ہے کہ جیسے تیسے ہو جائے گا۔ جنرل کیانی نے بھی کہہ دیا ہے کہ الیکشن 11 مئی کو ہو گا الیکشن کے بعد کیا ہو گا؟ کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔
کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے اور ناگہاں ہونے کو ہے۔
اگر اتحادی حکومت بنتی ہے نواز شریف بنا بھی لیں تو وہ چلے گی نہیں۔ پنجاب حکومت بھی اتحادی حکومت ہوئی تو شریف برادران کا کیا ہو گا۔ تب ق لیگ کے لوٹے بھی نہ ہوں گے۔ نئے لوگوں کے سامنے پرانے لوٹوں کا انجام بھی ہو گا۔ مگر سیاستدان لوٹا بننے کو بھی سیاست سمجھتے ہیں۔ پہلے اودھروں فیر ایدھروں ھن فیر اودھروں کھڑا اے۔ خلقت تنگ ہے فیر وی لوٹا لوٹا ای ہوتا ہے۔ اتحادی حکومت تو صدر زرداری بنائیں گے اور چلائیں گے بھی بلکہ چلا کے دکھا دیں گے۔ پہلے سے مختلف اور زیادہ مہارت یعنی مفاہمت سے چلائیں گے۔ وزیراعظم پیپلز پارٹی سے نہ بھی ہوا تو وہ صدر زرداری کا وزیراعظم ہو گا۔ پیپلز پارٹی اے این پی اور ایم کیو ایم الیکشن سے پہلے بھی ایک ہیں۔ ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد میں کیا نہیں ہوا مگر آج بھی گورنر سندھ ایم کیو ایم کا عشرت العباد ہے۔ ایم کیو ایم الیکشن سے چند دن پہلے پیپلز پارٹی سے الگ ہوئی۔ اپنا اپوزیشن لیڈر دیا اور دونوں کی پسند کا نگران وزیر اعلیٰ آ گیا۔ صوبہ خیبر پی کے میں اے این پی کے وزیر اعلیٰ اور جے یو آئی کے اپوزیشن لیڈر کو مفاہمت کرنے کے لئے کس کی ہدایت تھی۔ بلوچستان میں اسلم رئیسانی کی وزارت اعلیٰ بحال ہوئی اور پنجاب میں فیصلہ نہیں ہو رہا تھا تو صدر زرداری نے نجم سیٹھی کا نام دے دیا۔ نواز شریف نے منظوری دے دی۔ مرکز میں فیصلہ الیکشن کمشن نے کیا مگر نامزد صدر زرداری نے کیا تھا تو نگران حکومتوں میں بھی اتحادی حکومت والا فارمولا چلایا گیا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن