خلیفہ الرسول کا طرز عمل
حضور نبی کریم علیہ الصلوة والتسلیم کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہءرسول منتخب ہوئے۔اس وقت آپ محلہ سخ میں مقیم تھے۔ بیعت کے بعد آپ چھ ماہ تک وہیں قیام پذیر رہے۔ اکثر صبح پیدل مدینہ منورہ جاتے،کبھی گھوڑے پر بھی سوار ہوجاتے ۔ان کے جسم پر ایک لنگی اور گیروے رنگ سے رنگی ہوئی ایک چادر ہوتی ۔عشاءکی نماز کے بعد آپ اپنے اہل خانہ کے پاس واپس آجاتے۔ان کا معمول تھا کہ شام کو اپنی بکریوں کا دودھ نکالتے تواہل محلہ کی بکر یوں کا دودھ بھی دوھ دیتے ۔جب آپ کو خلافت تفویض ہوئی۔تو ایک بچی نے کہا اب ہماری بکریوں کا دودھ کون نکال کردیا کرے گا۔یہ سن کر آپ نے فرمایا:”میری عمر کی قسم یہ کام میں ہی سرانجام دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ خلافت کی ذمہ داری مجھے ان اخلاقِ کریمانہ سے نہیں روکے گی،جو پہلے سے مجھ میں ہیں۔“کبھی کبھی ازرہِ خوش طبعی ،اس بچی سے پوچھتے :اے لڑکی ! تم کیسا دودھ چاہتی ہو جھاگ والا یا بغیر جھاگ کے ،کبھی وہ کہہ دیتی جھاگ والا کبھی کہہ دیتی بغیر جھاگ کے۔آپ خوش دلی سے اس کا مطالبہ پورا کردیتے۔ایک دن وہ تجارت کی غرض سے بازار کی طرف نکلے،توحضرت عمر نے کہا کہ اگر آپ تجارت میں مشغول ہوجائیں گے تو سلطنت کے امور کون انجام دے گا۔ اس پر آپ نے استفسار فرمایا:کہ پھر میری گزر اوقات کیسے ہوگی؟یہ معاملہ شوریٰ کے سامنے پیش ہوا۔شوریٰ نے ان کے لیے اتنا وظیفہ مقرر کردیا جس سے ان کااور ان کے اہل خانہ کاایک دن کاگزارہ ہوجائے اوروہ اس وظیفہ سے حج وعمرہ بھی کرسکیں ۔اوریہ روزینہءاتنا ہی تھا جتنا کہ ایک عام مہاجر خاندان کو بیت المال سے میسر آتا۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے اپنے دورانیہ خلافت میں بیت المال سے کل آٹھ ہزار درھم وصول کیے۔جب آپ کی رحلت کا وقت قریب آیاتو آپ نے ارشادفرمایا ،ہمارے پاس مسلمانوں کے بیت المال میں سے جو کچھ ہے وہ واپس کردو کیونکہ میں اس وقت اس مال سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔اورمیں آج تک بیت المال سے جتنا مال استعمال کرچکاہوں۔اسکے بدلے میں میںنے اپنی فلاں زمین بیت المال کے نام کردی ہے۔ چنانچہ آپ کے وصال کے بعد وہ زمین ،ایک دودھ والی اونٹنی ،تلواروں کو تیز کرنے والا غلام اورایک چادر جس کی قیمت پانچ درھم تھی حضرت عمر کی خدمت میں پیش کی گئیں ۔آپ نے یہ دیکھا تو رونے لگے اورفرمایا :ابوبکر اپنے بعد میں آنے والوں کو بڑی مشکل میں ڈال گئے ہیں۔یعنی یہ طرز عمل کہ بغیر شدید ضرورت کے بیت المال سے کچھ وصول نہیں کیا اورجو کچھ حاصل کیا وہ بھی دنیا سے جاتے ہوئے واپس لوٹاگئے۔