• news

مقررہ وقت کے اندر پرامن انتخابات کیلئے صدر مملکت‘ الیکشن کمیشن اور کورکمانڈر لاہور کی یقین دہانی

 کیا نگران حکمرانوں کو اس معاملہ میں اپنی ذمہ داریوں کا کوئی احساس نہیں؟
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی منعقد ہونگے اور پرامن انتخابات کے انعقاد کیلئے حکومت تمام اقدامات بروئے کار لائے گی۔ اس حوالے سے تمام سیکورٹی اداروں اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ گزشتہ روز کراچی میں صدارتی کیمپ آفس بلاول ہاﺅس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کے دوران انہوں نے متعلقہ اداروں کو انتخابی امیدواروں کی حفاظت کیلئے جامع سکیورٹی پلان تشکیل دینے کی ہدایت بھی کی۔ یوم شہداءکے موقع پر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے 11 مئی کو ہی انتخابات کے انعقاد کی یقین دہانی کے بعد اگرچہ انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد کے بارے میں پیدا شدہ وسوسوں میں کچھ کمی ہوئی ہے تاہم ملک کے مختلف شہروں بالخصوص کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردوں کی جانب سے مختلف امیدواروں اور انکے انتخابی دفاتر پر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور گزشتہ روز بھی کراچی میں قتل و غارت گری‘ ٹارگٹ کلنگ اور تشدد و فائرنگ کے مختلف واقعات میں ایک نیوی اہلکار سمیت 17 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ کوئٹہ میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار لشکری رئیسانی کے دفتر پر بم حملہ میں 6 افراد اور ہرنائی میں جمعیت علماءاسلام (ف) کے جلسہ کے قریب دس راکٹ گرنے اور فائرنگ سے آٹھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح سانگھڑ میں پیپلز پارٹی کی عہدیدار شازیہ مری کے قافلے پر فائرنگ سے گزشتہ روز چار افراد زخمی ہو گئے جبکہ شکارپور میں انتخابی امیدوار ابراہیم جتوئی خودکش حملے میں بال بال بچے تاہم پانچ دوسرے افراد زخمی ہوگئے۔ اسی طرح پشاور میں اے این پی کے امیدوار کے دفتر کے قریب سے بم برآمد ہوا ہے۔ دہشت گردی اور تخریب کاری کی روزبروز بڑھتی اور انتخابی مہم کو خونی بناتی ہوئی یہ وارداتیں انتخابات کے پرامن انعقاد کی تو ہرگز عکاسی نہیں کر رہیں‘ اس لئے اگر آرمی چیف کے بعد صدر زرداری نے بھی مقررہ وقت کے اندر پرامن ماحول میں انتخابات کے انعقاد کا یقین دلایا ہے تو اس کیلئے حکومتی انتظامی مشینری کی فعالیت نظر بھی تو آنی چاہیے۔ سردست تو الیکشن کمیشن کی جانب سے ہی یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پولنگ سے ایک روز قبل 10 مئی کو ملک کے 72 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز پر سکیورٹی تعینات کی جائیگی اور پاک فوج کو ”کوئیک رسپانس فورس“ کے طور پر استعمال کیا جائیگا۔ اسی طرح گزشتہ روز کور کمانڈر لاہور جنرل مقصود احمد نے بھی شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے سلسلہ میں طلب کئے گئے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے باور کرایا کہ انتخابات میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی۔ دوسری جانب محکمہ داخلہ بلوچستان نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ پاک فوج کے مزید دستے الیکشن کے دوران سکیورٹی کے فرائض انجام دینے کیلئے اندرون بلوچستان میں چلے گئے ہیں جبکہ گزشتہ روز نگران صوبائی وزیر داخلہ طارق پرویز نے بھی آئی جی پولیس پنجاب کے ساتھ میٹنگ میں پنجاب میں انسداد دہشت گردی کا پلان کیا ہے مگر یہ سب اقدامات محض کاغذی کارروائی ہی نظر آرہے ہیں اور نگران سیٹ اپ کی جانب سے دہشت گردی کی وارداتوں میں مصروف جمہوریت اور امن دشمن عناصر کیخلاف کوئی ٹھوس ایکشن نہیں لیا گیا‘ نتیجتاً انکے حوصلے روز بروز بلند ہو رہے ہیں اور وہ ملک میں افراتفری پیدا کرکے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے نظر آرہے ہیں۔ اگر پولنگ والے دن تک دہشت گردی کی ایسی وارداتوں کا سلسلہ بلاخوف و خطر جاری رہا اور الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق پولنگ سے ایک روز قبل 72 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشن فوج اور دوسری سکیورٹی ایجنسیوں کی تحویل میں دے دئیے گئے تویہ صورتحال عملاً سنگینوں کے سائے میں انتخابات کے انعقاد کی بن جائیگی۔ پھر کیا خوف و ہراس کی اس فضا میں ووٹر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے نکلنے پر آمادہ ہو جائینگے؟ اگر اس فضا میں ٹرن آﺅٹ ہی حوصلہ شکن رہا تو انتخابات کے مطلوبہ نتائج حاصل کیسے ہو پائیں گے؟ پھر نگران سیٹ اپ کس زعم میں قوم کو اسکی امنگوں کے مطابق صاف شفاف انتخابات کا مژدہ سنا رہا ہے جبکہ عملاً اسکی کوئی صورت بنتی ہی نظر نہیں آرہی۔ انتخابات میں حصہ لینے والی مختلف جماعتوں کے تحفظات و خدشات اپنی جگہ درست ہیں جن کے ازالے کے بغیر انتخابی عمل پر ان کا اعتماد قائم نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ کچھ قوتیں جمہوریت پسند جماعتوں کو انتخابات سے دور رکھنے کی سازش کر رہی ہیں جبکہ ایم کیو ایم متحدہ کے قائد الطاف حسین نے بھی حیدرآباد کے جلسے میں ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ دھماکے کرنیوالے ایم کیو ایم کو الیکشن سے دور رکھنا چاہتے ہیں تاہم ان کا یہ بیان حوصلہ افراءہے کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرینگے اور روشن خیال جماعتوں سے مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرینگے۔ دہشت گردوں کی پیدا کردہ خوف و ہراس کی اس فضا کے باوجود انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کیلئے قومی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا عزم یقیناً لائق تحسین ہے مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ دہشت گردی کے خوف نے روایتی انتخابی سرگرمیاں ماند کردی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت تو اب تک کسی پبلک جلسہ میں شریک ہی نہیں ہو سکی جبکہ اے این پی نے یکے بعد دیگرے دہشت گردی کی وارداتوں کے بعد اپنی انتخابی سرگرمیاں چار دیواری تک محدود کر دی ہیںاور ایم کیو ایم متحدہ بھی اپنے انتخابی دفاتر بند کرنے پر مجبور ہوچکی ہے۔ اس صورتحال میں اگر مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام (ف) سمیت متعدد سیاسی ‘ جماعتوں کے قائدین پبلک جلسوں کے ذریعے پرجوش انداز میں اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں تو اس سے بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان نے ان جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم بلاخوف و خطر چلانے کی سہولت دے رکھی ہے۔ اس تناظر میں متذکرہ جماعتوں کے قائدین کے دہشت گردوں سے رابطے کے الزامات لگانے کی بھی بعض حلقوں کو سہولت مل رہی ہے جس سے یقیناً انتخابی عمل کی غیرجانبداری پر بھی سوالات اٹھیں گے اس لئے صاف شفاف‘ آزادانہ‘ منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار نگران حکمرانوں کو اس ساری صورتحال کا پہلے ہی سے ادراک کرنا چاہیے تھا تاکہ کسی بھی حوالے سے انتخابی عمل پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ اس صورتحال میں محسوس یہی ہوتا ہے کہ نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں ”مدعی سست گواہ چست“ کے مصداق اپنی ذمہ داریوں سے بے نیاز ہو چکی ہیں اور انتخابات کے دوران امن و امان کیلئے جو اقدامات نگران حکمرانوں کو کرنے چاہئیں تھے‘ وہ الیکشن کمیشن کے ایما پر افواج پاکستان سرانجام دینے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ کیا نگران حکمران اس حوالے سے قوم کو مطمئن کر سکتے ہیں کہ اگر وہ انتخابی عمل کے دوران امن و امان کو یقینی بنانے کی ذمہ داریاں ہی نہیں نبھا پائے تو پھر انکی ذمہ داریوں کا دوسرا کون سا ایجنڈہ ہے۔ انہیں اب بھی خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہیے اور پولنگ سے پہلے پہلے امن و امان کی بحالی کو یقینی بنانے کے اقدامات اٹھا لینے چاہئیں ورنہ خونی انتخابات ان کیلئے کسی نیک نامی کا باعث نہیں بنیں گے۔ 

ای پیپر-دی نیشن