ضابطہ ء اخلاق اور انتخابی عمل پر دہشتگردی کے سائے
فرمانِ رسولﷺ جس کا اخلاق اچھا نہےں وہ ہم مےں سے نہےں“۔ملک مےں انتخابی عمل کو دہشت گردی کے سائے گھےرے ہوئے ہےں اور الیکشن کمےشن کی طرف سے سےاسی پارٹےوں اور نمائےدوں کو اےک دوسرے پر ذاتی تنقےد کانوٹس لےتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ ذاتی تنقےد ضابطہءاخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ کپتان گزشتہ 13 سال سے سےاسی اُفق پر جلواگر ہونے کی کوشش مےں مصروف ہے اتنے عرصے مےں اگر اسے ضابطہءاخلاق سے واقفےت نہےں ہوسکی تو وہ جس نئے پاکستان کے خواب دکھا رہا ہے وہ کےسا ہوگا؟ کپتان اپنی تقرےروں مےں مغرب کی مثالےں تو بہت دےتا ہے لےکن اس کی گفتار دےہاتی لوگوں جےسی بھی نہےں کےونکہ دےہات کے رہنے والے بھی بڑی سلجھی ہوئی سنجےدہ گفتگوکرلےتے ہےں ۔ اعلیٰ تعلےم ےافتہ اور برےڈفورےونےورسٹی کے اعزازی چانسلر کو کےا ےہ معلوم نہےں کہ مغربی ملکوں مےں مخالف سےاسی نمائندوں کے عزت واحترام کو بڑی اہمےت دی جاتی ہے۔ دراصل ہمارا سارے کا سارا سےاسی نظام ابھی تک سےکھنے کے عمل سے گزررہا ہے۔ اُمےد کی جاسکتی ہے کہ آنے والے تےن چار الےکشن مےں ہمارے نمائندے جان ہی جائےں گے کہ کسی پارٹی کے صدر ےا چےئر مےن کا اندازِ تکلم کےسا ہونا چاہےے۔ البتہ موجودہ الےکشن مےں ن لےگ کی قےادت کا طرزِعمل بہت مختلف رہا۔ اس ضمن مےں ن لےگ کو اُس وقت کافی اخلاقی برتری حاصل ہوگئی جب مشرف کی ملک مےں آمد پر نوازشرےف کی جانب سے معافی کا اعلان کےا گےا۔ سول سوسائٹی ، فوج اور تقرےباََ ہر شعبہءزندگی کی طرف سے معافی کے اس اعلان کو بہت سراہاگےا۔ ضابطہءاخلاق کے ضمن مےں دوسرا امسئلہ جو ہمےں درپےش رہتا ہے وہ ےہ کہ بغےر کسی ٹھوس شواہد اور ثبوت کے ہم دوسروں پر الزام لگا دےنے مےں دےر نہےں کرتے۔ ےہاں صرف اےک مثال پےش کرتے چلےں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے من گھڑت الزام لگاےاگےا کہ مےٹروبس پر 70 ارب روپے خرچ کردئےے گئے۔ اس پر شہبازشرےف نے ناصرہ جاوےداقبال کو پےش کش کی کہ وہ تشرےف لائےں اور آکر کاغذات دےکھ کر بتائےں کہ اصل حقائق کےا ہےں۔ اگر30ارب روپے سے اےک پائی بھی اوپر خرچ ہوئی ہو تو مےں ذمہ دار ہوںگا“۔ اس آفر کا تاحال کوئی جواب موصول نہےں ہو سکا۔ ےاد رہے کہ ناصرہ جاوےداقبال کا بےٹا موجودہ الےکشن مےں پی ٹی آئی کی نمائندگی بھی کر رہا ہے۔اللہ کے پےارے نبیﷺ کا فرمان ”وہ شخص مسلمان نہےں جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرا مسلمان محفوظ نہےں۔پےارے نبیﷺ کے اس فرمان مےں ضابطہءاخلاق کی صورت بھی واضح ہوجاتی ہے اور شدت پسندوں کے بھےس مےں چھپے کردار بھی نماےاں ہو کر ہمارے سامنے آجاتے ہےں۔ اب سوال ےہ ہے کہ کےا ہمےں پےارے نبیﷺ کے اس فرمان پر کوئی شک ہے؟ اگر نہےں تو پھر ہمارے علماءاورمشائخ اس فرمان کا پرچار کرنے سے کتراکےوں رہے ہےں۔ اب تک کسی مذہبی جماعت کے نمائندے نے پےارے نبیﷺ کے اس فرمان پر بات کرنے کی جرا¿ت نہےں دکھائی۔ توگوےا سمجھ لےناچاہےے کہ ہم اس وقت اس معاشرے کا حصہ بنادےئے گئے ہےں جہاں ےہ ماحول بنادےاگےا ہے کہ ہمےںاپنے ہی نبیﷺ کے فرمان پر بات کرنے کے لےے بڑی جرا¿ت درکار ہوگی۔ ہمارا ملک گزشتہ کئی دہائےوں سے دہشت گردوں کے رحم وکرم پر ہے۔ تےنوں صوبائی دارالحکومتوں مےں بم دھماکے ہورہے ہےں۔ انتخابی اُمےدوار مسلسل نشانے پر ہےں اور فول پروف سےکورٹی کا عالم ےہ ہے کہ دہشت گرد اتنے طاقتور ہوچکے ہےں کہ وہ آج بھی بارود سے بھری گاڑی کو اسلام آباد مےںانتہائی سےکورٹی زون مےں پہنچا سکتے ہےں۔ کےا موجودہ دہشت گردی کا مقصد صرف الےکشن ملتوی کرانا ہے؟ ےا پھر محض خوف وہراس کی فضا پےدا کرنا ہے کہ جس مےں بآور کراےا جاسکے کہ انتخابات نہےں ہوں گے۔ اور اگر کسی طرح ہوئے بھی تو کوئی پارٹی واضح اکثرےت حاصل نہےں کرسکے گی۔ اس طرح کمزور حکومت وجود مےں آئے گی۔ سب جانتے ہےں کہ کمزور حکومتوں کی ساری توجہ اپنے ناتواں وجود کو برقرار رکھنے پر لگی رہتی ہے۔ ملک کی ترقی کاکام پسِ پشت ڈال دےا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے تمام دشمن اےک اےجنڈے پر متفق ہوکر کام کررہے ہےں وہ ےہ کہ پاکستان کو کسی بھی صورت ترقی کی راہ پر چلنے سے روکاجائے۔ حال ہی مےں تےن جماعتوں کا اتحاد سامنے آےا ہے۔ پےپلزپارٹی ، متحدہ اور اے اےن پی۔ قارئےن ےہ کوئی نےا اتحاد نہےں ہے ےہ وہی پرانا والا اتحاد ہے جس نے مل کر پانچ سال تک حکومت کے مزے لوٹے ہےں۔ اوراب ےہ لوگ پھر سے متحدہو کر کہہ رہے ہےں کہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی جماعتوں کا کوئی پرسانِ حال نہےں ۔ ساری دنےا نے دےکھا ہے کہ جب ےہ لوگ اقتدار کی مسند پر براجمان تھے تب دہشت گردی کا نشانہ بننے والے عام لوگوں کا بھی کوئی پُرسانِ حال کوئی نہےں ہوتا تھا۔ کاش ےہ جماعتےں جس طرح اپنے اقتدار کے لےے اکٹھی تھےں اسی طرح اگر دہشت گردوں کے خلاف بھی اسی اتحاد کا مظاہر کرتےں تو آج کی صورتِ حال مختلف ہوتی۔ اب حالت ےہ ہے کہ بلاول بھٹوبھی اپنے وےڈےو خطاب مےں کہہ رہا ہے کہ بے نظےر بھٹو کے قاتل اب اسے بھی ختم کرنا چاہتے ہےں۔ اس پر ےہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر آج کا کام کل پر چھوڑا جائے گا تو پھر وہ آپ کے گلے پڑ جائے گا۔ سابقہ حکومت نے جتنی سنجےدگی لوٹ کھسوٹ مےں دکھائی اگروہ بی بی صاحبہ کے قاتلوں کا بندوبست کرنے مےں بھی اتنی سنجےدگی دکھاتی تو آج آپ کو ےہ دن نہ دےکھنے پڑتے۔ گزشتہ حکومتوں نے جو فصل بوئی تھی وہ اب پھل دےنے لگی ہے۔ اےسے مےں اس تےن جماعتی اتحاد جو آج دہشت گردی کا واوےلا کر رہا ہے اس سے کوئی پوچھے کہ اگر آپ کی سابقہ حکومت سارے وسائل اوراختےارات کے باوجود اس مسئلے کاکوئی حل تلاش نہےں کرسکی توپھر نگران حکومت جس کاکام انتخابات کرانا ہے وہ اس قدر خراب حالات کو محدود مدت مےں کےسے درست کرےں گے؟اب جبکہ سندھ کی نگران حکومت کے غےر سےاسی اور غےرجانبدار ہونے پر اےک بہت بڑا سوالےہ نشان لگ چکا ہے۔ اےسے مےں ےہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کراچی مےں صرف فوج کے آپرےشن سے ہی حالات مےں بہتری کی اُمےد کی جا سکتی ہے۔ آخرمےں ذکر کرتے چلےں ےومِ شہدا پر جنرل کےانی کے خطاب کا۔ پاکستانی قوم کیلئے جنرل کےانی کا ےہ خطاب بہت خوش آئندہے۔ جس مےں انہوں نے کہا کہ کسی کو کوئی شک نہےں ہونا چاہےے کہ انتخابات 11مئی ہی کو ہونگے۔ اُنہوں نے مزےد کہا کہ فوج شفاف انتخابات کیلئے بھرپور تعاون کریگی ۔ اگرووٹ کا استعمال اےمانداری اور اہلےت کی بنےاد پر کےا گےا توآمرےت کا خطرہ ہوگا نہ جمہورےت کی خامےوں کا شکوہ، ورنہ حکمرانی لوٹ کھسوٹ کا ذرےعہ بنتی رہے گی۔ اسکے علاوہ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف ساری قوم کو متحد ہونا ہوگا۔ اسے صرف فوج کی جنگ سمجھنا ملک کو انتشار کی طرف لے جائیگا جس کاوہ متحمل نہےں ہوسکتا۔ مولانا فضل الرحمان اس پر غور کریں۔