قومی انتخابات اور عوامی توقعات
11مئی2013کے عام انتخابات پاکستان کی چودھویں پارلیمنٹ کا چناﺅ کرینگے۔ 1962 کے انتخابات سے لیکر اب تک یہ ملک کے گیارھویں عام انتخابات ہونگے جن میں تقریباً5لاکھ بیلٹ باکسز استعمال ہورہے ہیں۔ ان انتخابات میں تقریباً9 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز تقریباً1000 ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کا انتخاب کرینگے۔ یہ ارکان انتخابات کے فوراً بعد وزیراعظم اور چار وزرائے اعلیٰ کو منتخب کرینگے پھر چند ماہ بعد ملک کے صدر کا انتخاب کرنے کیلئے بھی یہی ارکانِ اسمبلی اور سینٹ کے ممبران اپنے ووٹ ڈالیںگے۔ پاکستان الیکشن کمشن نے انٹرنیشنل فاﺅنڈیشن فار الیکٹورل سسٹم ( ایشیا) کی مدد سے ووٹروں کی کمپیوٹرائزڈ لسٹ تیار کی تو پتہ چلا کہ پہلے سے موجود لسٹ میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ ووٹ جعلی تھے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ ان جعلی ووٹوں کو ختم کرکے تقریباً چار کروڑ مزید افراد ووٹر لسٹ میں شامل کئے گئے یہ لوگ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اپنے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوںکی معاشی بد حالی کا شکار پاکستانی قوم اب شدت سے اگلے انتخابات کی منتظر ہے لیکن ساتھ ہی اُنکے دلوں میں یہ خوف بھی ہے کہ کہیں آنے والی منتخب اسمبلیاں بھی 2008 میں منتخب کر کے آنے والے ارکان کی طرح دھماکوں اور ڈرون حملوں کی وجہ سے خون میں لت پت اور غربت کی چکی میں پسی ہوئی اس بد حال قوم کو دوبارہ 12فیصدی مقبولیت والا عالیشان صدر، میگا کرپشن کی بد نامیوں سے مالا مال وزرائے اعظم اور این آر او زدہ وزیر، مشیر،سیکرٹری اور کارپوریشنوں کے بد عنوانیوں میں ڈاکٹریٹ کے اعزاز کے حامل سربراہان چُن چُن کر پھر ہمارے سروں پر دوبارہ مسلط نہ کردئیے جائیں چونکہ 2008 کے انتخابات میں بھی خودکش اور ڈرون حملوں سے مجروح اس قوم نے اِن امیدوں کے ساتھ بیلٹ باکس میں اپنا ووٹ ڈالا تھا کہ شائد انتخابات کے بعد بیلٹ باکس کی وساطت سے پاکستان کی فضا امن کا گہوارہ بن جائیگی اور ہم معاشی خوشحالی کی راہ پر فوراً گامزن ہوجائینگے بد قسمتی سے ان انتخابات کے بعد ہمارا جانی نقصان کئی گنا بڑھ گیا اور مالی نقصانات اور معاشی بد حالی نے تو پاکستانی تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اب انتخابی مہم زوروںپر ہے سیاسی جماعتوں نے دیانتدار اہل اور با کردار لوگ آگے لانے کے واعظ تو بڑے کئے لیکن اب بھی بہت سارے وہی لوگ سامنے آئے ہیں جنہوں نے ماضی کی قومی تباہی کی تاریخ میں اپنے نام جلی سرخیوں میں لکھوائے ہیں زیادہ تر،پارٹیوں نے ٹکٹ دیتے وقت امیدوار کے کردار یا ماضی کی نالائقیوں کو سامنے رکھنے کی بجائے یہ دیکھا کہ سیٹ کون جیت سکتا ہے قوم کو یہ امید تھی کہ یہ لو گ اب کلین الیکشن کمشن کی تیز آنکھوںکی میرٹ اور دیانتداری سے معطر پاکیزہ پتلیوں کے فلٹر سے نہ گزرنے پائیں گے۔ الیکشن کمشن کے ریٹرننگ آفیسروں کے چند جرا¿ت مندانہ فیصلوں نے قوم کے حوصلوں کو کچھ بلند ہی کیا تھا کہ قابل احترام عدلیہ نے بالآخر تقریباً ہر کسی کو صفائی کی چٹ عطا کردی۔ اس سے عوام کی ایک ” وکھری“ قسم کی نئے اور تازہ چہروں والی اسمبلیاں آنے کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ اس بنیادی دھکے کے علاوہ موجودہ انتخابی مہم کو چند اور حالات و واقعات نے بھی متاثر کیا جن میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں۔(1) علامہ طاہر القادری نے کروڑوں بلکہ اربوں روپے خرچ کرکے ایک ناقابل یقین مہم چلائی جس کا مقصد قوم پر یہ واضع کرنا تھاکہ انتخابات اس وقت تک بے سود ہیں جب تک اُن کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کرلئے جاتے اور سچی بات یہ ہے اُن کے وہ چند مطالبات جن کا تعلق ڈیفالٹرز،جعل سازوں اور ثابت شدہ دھوکہ بازوں کو انتخابات سے دور رکھنا تھا، بالکل جائز تھے لیکن جب اُن کے دھرنے کا انجام بد نام حکومتی اتحاد کے ساتھ ایک ناقابل عمل معاہدے کی شکل میں منتج ہوا تو پھر پوری قوم نے یہ کہا کہ یہ نورا کشتی ہی تھی لیکن قادری صاحب کی مہم سے جہاں چند مثبت پہلو اجاگر ہوئے وہاں لوگوں کے انتخابی عمل کی افادیت پر ایمان کمزور ہوا۔(2) اپنے دورِ حکومت کی پانچ سالہ مدت کو مکمل کرنے کے جذبے میں حکمران اتحاد انتخابات کی تاریخ کو ایک ایسے موسم تک دھکیل کرلے گیا جس میں پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے میں گندم کی کٹائی زوروں پر ہے اس سے امیدوار انتخابی مہم کو چلا نہیں پارہے۔(3) انتخابی مہم کیلئے 60دن کا عرصہ پہلے ہی ناکافی تھا اس پر طرہ یہ کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کو باندھ کر رکھنے کیلئے ٹکٹوں کے اجرا کو آخری حد تک کھینچ کر انتخابی مہم کیلئے صرف تین ہفتے چھوڑے۔(4) بہت ہی محدود انتخابی مہم کے شروع ہوتے ہی جنرل پرویز مشرف کی پاکستان میں آمد قومی توجہ کا مرکز بن گئی۔ سابقہ صدر، سابقہ آرمی چیف اور چیف ایگزیکٹو پر بہت ہی سنجیدہ الزامات کی بوچھاڑ اور میڈیا ہائپ سے نہ صرف انتخابی مہم میں ولولے کا فقدان رہا بلکہ ایک بہت نقصان دہ پراپیگنڈہ یہ بھی ہونا شروع ہوگیا کہ انتخابات شائد نہیں ہوسکیں گے ۔ اس غلط اور گمراہ کن پروپیگنڈے کو ختم کرنے کیلئے گزشتہ روز آرمی چیف نے مقررہ وقت پر شفاف الیکشن کا بیان دے کر ان افواہوں کا گلا گھونٹ دیا ہے جو ایک درست قدم ہے۔(5) انتخابی مہم پر ایک اور کاری ضرب کراچی، پشاور اور بلوچستان میں چند سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وارداتیں ہیں جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔قارئین مذکورہ بالا حقائق کی وجہ سے موجودہ انتخابی عمل متاثر ہوا ہے اور جو مہم چل رہی ہے اس میں بھی بد قسمتی سے قائدین اندرونی اور بیرونی خطرات، خارجہ پالیسی، کشمیر ایشو، افغانستان سے امریکی خلا، پاک و ہند تعلقات معاشی بد حالی، دہشت گردی اور قانون کی حکمرانی سے متعلق اپنے منشور کو ہائی لائٹ کرنے کی بجائے ایک دوسرے پرذاتی حملے کر رہے ہیں جس سے ذی ہوش طبقہ پریشان ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ شاید ان قائدین کے پاس قومی ایجنڈہ کوئی نہیں ہے۔ حالانکہ ہر جماعت نے بڑی محنت سے اپنے منشور تیا ر کئے ہیں یہ وقت ہے کہ ہر جلسے میں اس منشور کی چیدہ چیدہ باتوں کا ذکر ہو۔ قومی اور بین الاقوامی تجزیہ نگار مذکورہ بالا حالات کہ وجہ سے انتخابی نتاےج سے متعلق اپنی حتمی رائے دینے سے قاصر ہیں۔ پوری قوم دعا گو ہے کہ اللہ کرے اس دفعہ بیلٹ باکس سے ایسی اسمبلیاں نمودار ہوںجو ملکی مفاد میں ایک بہترین حکومت بنائیں جو پاکستان کو ان مشکل ترین حالات سے نکال کر عروج پر لے جائیں۔ آمین۔ اگر اس دفعہ بھی بیلٹ باکس نے کچرا ہی اگلا اور اقتدار کے ایوانوں میں چوٹی کے کرپٹ ،نااہل دو نمبرئیے پہنچ گئے تو پھر بیلٹ باکس اور موجودہ جمہوری نظام سے لوگوں کا اعتبار بالکل اٹھ جائے گااور اس سے آمریت کی راہ ہموار ہوگی جو ملکی مفاد میں نہیں ۔ اس لئے حالیہ قومی انتخابات سے بہت ساری قومی توقعات وابستہ ہیں۔