بیرونِ وطن ۔ قائدِاعظمؒ کے سپاہی !
واشنگٹن (امریکہ) سے پاکستانی نژاد امریکی، پی ایچ ڈی ڈاکٹر، ذُوالفقار ۔اے ۔کاظمی صاحب نے مجھے، بذریعہ ای میل جو خط بھجوایا ہے ، وہ نذرِ قارئین ہے ۔۔۔
”محترم اثر چوہان صاحب!السلام علیکم!۔سب سے پہلے تو آپ، قبلہ ءمحترم، جناب مجید نظامی کی خدمت میں، دِل کی گہرائیوں سے ، میرا ،اظہارِ تشکر اور احسان مندانہ اعتراف پیش کر دیں، جو وہ اپنے قابلِ تکریم روزنامہ۔” نوائے وقت“۔ میں نظریہ ءپاکستان کے تحفظ ، ترویج واشاعت اور برصغیر کے عظیم قائد ۔قائدِاعظم محمد علی جناح ؒ کی عزّت و ناموس کے تحفظ کے لئے مثالی سعی ، حمایت اور قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔مَیں آپ کو بھی مبارکباد پیش کرتاہُوں کہ آپ نے، 29اپریل کو، اپنے کالم ۔” سیاست نامہ“۔ میں حضرت قائدِاعظمؒ سے متعلق، سُپریم کورٹ آف پاکستان کے معروف ایڈووکیٹ، میاں جمیل اختر صاحب کا خط شائع کر کے، قائدِاعظمؒ کے دشمنوں کو مُنہ توڑجواب دِیا۔
اثر چوہان صاحب!مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ ،مَیں گذشتہ دو دہائیوں سے ، امریکی عوام وخواص اور میڈیا میں۔ قائدِاعظمؒ سے متعلق صحیح اور ہمدردانہ آگاہی کے لئے، مسلسل جدوجہد کر رہا ہوں۔ میرے عِلم میں ،جب بھی کوئی منفی عمل لایا جاتا ہے تو مَیں ، بابائے قوم ۔ عظیم قائد ۔ قائدِاعظمؒ کی عِزّت اور وقار کے تحفظ کے لئے سرگرم ِعمل ہو جاتا ہوں ۔ مَیں یہاں آپ کو ۔”Time Magazine 1996 “۔ سے متعلق ایک اہم واقعہ سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں ۔ قائدِاعظمؒ کے سوانح نگار ۔”Stanely Wolpert“۔ نے لِکھا ہے کہ ۔” کچھ لوگ معنی خیز طریق سے ، تاریخ کا رُخ موڑ دیتے ہیں ۔کچھ دُنیا کا نقشہ تبدیل کر دیتے ہیں ،لیکن مُشکل سے کسی ایک کو ،قومی ریاست تخلیق کرنے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے ۔ محمد علی جناحؒ نے یہ تینوں کام کر دِکھائے“۔
اثر چوہان صاحب!جہاں ہمارے عظیم قائد اور بانیءپاکستانؒ کے بارے میں، ہم اِس طرح کے نظریات دیکھتے ،پڑھتے اور سُنتے ہیں، وہاں ہماری معلومات کے مطابق ،پاکستان سے باہر۔ قائدِاعظمؒ کی نیک نامی کو نقصان پہنچانے کے لئے کُچھ منظم تحریکیں بھی چل رہی ہیں۔ 23دسمبر1996ء کے۔”Time Magazine“۔ کے ایشیا ایڈیشن میں۔
” Newsmakers Of the Half -Century“کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہُوا تھا ،جِس میں بانیءپاکستان ؒ کی شخصیت پر، اوچھے وار کئے گئے تھے۔اُن دِنوں امریکہ میں پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھیں۔اُن کے مشورے سے مَیں نے، ٹائم میگزین کو اُس مضمون کا جواب بھجوایا جو چھپ گیا تھا۔ اُس کے بعد، مَیں نے قائدِاعظمؒ کی عِزّت اور وقار کے تحفظ کو اپنا مِشن بنا لِیا ۔ مَیں آپ کی وساطت سے، محترم مجید نظامی کو یقین دِلاتا ہوں کہ، مُجھ جیسے پاکستانی نژاد امریکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ،پاکستان اور بانیءپاکستان حضرت قائدِاعظمؒ کی عِزّت اور وقارکے تحفظ کے لئے سِینہ سپر ہے۔میرے والدین نے مقبوضہ ریاست ۔”جمّوں“ ۔سے ہجرت کر کے پاکستان کو اپنا وطن بنایا تھا ۔مَیں مطمئن ہوں کہ محترم مجید نظامی مقبوضہ ریاست جمّو ں کشمیر کے مسلمانوں کو اُن کا حق ِخودارادی دِلوانے کے لئے جدو جہد کر رہے ہیںاور امریکہ میں مَیں اور میرے ساتھی بھی۔
نہایت احترام کے ساتھ
ڈاکٹر ذُوالفقار ۔اے ۔کاظمی
001-703-398-6400"
خط کے ساتھ ڈاکٹر ذوالفقار ۔اے ۔کاظمی صاحب نے اپنے جو کوائف بھجوائے ہیں وہ ایک دریا کی حیثیت رکھتے ہیں جِسے میں اپنے کالم کے کوزے میں بند کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ۔مختصراً یہ کہ موصوف Commongrounds تھِنک ٹینک کے بانی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیںاور 1994ءسے امریکہ اور دوسرے ملکوں میں ،اسلام اور پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں دُور کرنے کے لئے امریکہ کے علاوہ، کئی دوسرے ممالک میںاہم تقاریب منعقد کر چکے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ڈاکٹر کاظمی،قائد،اعظم ؒ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو مُنہ توڑ جواب دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔
مَیں اپنے بچوں اور اُن کے بچوں سے مِلنے کے لئے ، ہر سال ( تین چار مہینے کے لئے) امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جاتا ہوں۔ گذشتہ سال گیا تو آﺅٹ آف ایجنڈا۔مجھے بعض نجی محفلوں میں، کچھ ایسے بھارت نواز صحافیوں ، دانشوروں ، شاعروں ، ادیبوں اور شکلِ مومناں قسم کے لوگوں سے بھی مِلنا پڑا جو، میرے لئے اور مَیں اُن کے لئے ناپسندیدہ تھا ۔ وہ لوگ قیامِ پاکستان کو غلطی قرار دیتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ۔” جناح صاحب ( وہ قائدِاعظمؒ نہیں کہتے) کی اِس غلطی پر، پاکستانی سیاستدانوں ،بلکہ پُوری قوم کو ۔ بھارت، میں رہ رہے مسلمانوں سے معافی مانگنا چاہیے“۔جب بھی اِس طرح کی گفتگو ہوتی ،میرا خون کھول اُٹھتا ۔ کئی بار ۔” تھڑا سیاست“۔ کا سا ماحول پیدا ہُوا تو، میزبانوں کو بِیچ بچاﺅ کرانا پڑا۔مَیں مشرقی پنجاب کا مہاجر ہوں۔پاکستان قائم ہُوا تو مَیں 11سال کا تھا ۔ نابھہ ، پٹیالہ اور امرتسر میں میرے خاندان کے 26افراد شہید ہوئے ۔میرے چچا رانا فتح محمد اور پھوپا چودھری محمد صدیق ،مسلم نیشنل گارڈز میں تھے جو،سِکھوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔ ہجرت کے بعد ہم لوگ قصور اور والٹن کیمپ لاہور میں رہے ۔ مَیں 1971ءمیں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں اور اس کے بعد سوات کے طالبان زدگان ، پھر زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کے کیمپوںمیں جب بھی بے گھر خواتین کو ٹیلی وژن کے کیمروں سے بچنے کی کوشش میں دوپٹوں سے اپنے چہروں کو ڈھانپے ہوئے دیکھتا تو رو پڑتا ۔ اِس لئے کہ وہ سب خواتین ، میری مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں تھیں۔
14اگست 2011ءکو مَیں نیویارک میں تھا ۔ میرا بڑا بیٹا ذوالفقار علی چوہان ، نیویارک کے ایک بہت بڑے ادارے میںI-T-Consultant ہے اور بہو ڈاکٹر عالیہ چوہان ایک سرکاری ہسپتال میں چائلڈ سپیشلسٹ ۔ وہ مُجھے Nassau County کے آئزن ہاور پارک میں لے گئے جہاں کاﺅنٹی کی انتظامیہ اور پاکستانی نژاد امریکیوں کی مختلف سماجی و ثقافتی تنظیموں کے اشتراک سے۔” یومِ آزادیءپاکستان “۔ منایا جا رہا تھا ،تقریب میں، تحریکِ پاکستان اور ثقافتِ پاکستان کے حوالے سے پروگرام بھی پیش کئے گئے ۔اُن دِنوںمیرے دونوں پوتوں شاف علی چوہان اور عزم علی چوہان کی عمریں بالترتیب 10سال اور5سال تھیں ۔ وقفوں وقفوں کے بعد ،جب وہ اپنے ہم عمر اور بڑی عُمر کے بچوں کے ساتھ مِل کر،اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرتے ہُوئے ۔” پاکستان زندہ باد اور قائدِاعظمؒ زندہ باد“۔ کے نعرے لگا رہے تھے تو میں کئی بار آبدیدہ ہُوا۔ڈاکٹر ذوالفقاراے کاظمی صاحب!آپ یقین رکھیں کہ بیرونِ پاکستان۔پاکستانی نژاد نئی نسل کے دِلوں میںبھی ۔”قائدِاعظم ؒ کے سپاہی“۔ بننے کی آرزو انگڑائی لے رہی ہے !۔