• news
  • image

رنگ بدلتی سیاسی فضا۔۔۔سوالات اور موضوعات کی بھر مار


جوں جوں الیکشن کی تاریخ قریب آ رہی ہے پاکستان میں سیاسی فضا بھی عروج پر ہے ہر طرف الیکشن کی گہما گہمی ہے اور اس گہما گہمی کے ماحول میں بے شمار سوالات ،مسائل بھی بدلتی ہوئی اس صورت حال کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔اتنے موضوعات ہیں کہ کس کو چھوڑیں اور کس پر لکھیں۔اس حوالے سے آج ہم نے کچھ کرنٹ افیئر کا انتخاب کیا ہے اس پر تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں۔
 یوں تو ہم نے اپنے گذشتہ کئی کالموں میں اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کی بہتر ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے جس پر ہمیں دنیا بھر سے اووسیز پاکستانیوں کا خراج تحسین اب تک محصول ہو رہا ہے۔ گذشتہ روز سپریم کورٹ میں وفاق کے نمائندے نے با لآخر اووسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے معذرت کر لی جس پر ایک کروڑ سے زائد تارکین وطن پاکستانی بہت زیادہ اشتعال میں ہیں۔یہ سب تیاری تو پہلے سے موجود ہونی چاہیے تھی عین الیکشن کے دنوں پر آ کر اس مسئلے کو سوموٹو الیکشن لے کر اچھالا گیا جبکہ نتیجہ اس کا بھی دوسرے سوموٹوزایکشن جیسا ہوا۔گذشتہ حکومت جو تارکین وطن کی خیرخواہی کے بڑے دعوے کرتی تھی وہ پانچ سال میں ایک ایسا قانون نہ بنا سکی کہ اووسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جا سکے۔عذر اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ فی الحال مشکل ہے کہ ریٹرننگ افسروں کی ٹیمیں بنا کر بیرون ممالک بھیجی جا سکیں۔حالانکہ اس کے لیے پاکستان سے عملہ منگوانے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی سپیشل قسم کے بیلٹ پیپر چھپوانے کی ضرورت تھی ۔ ہماری ایمبیسیوں میں بڑا وافر عملہ اور سٹاف موجود ہوتا ہے جو کہ پورا دن وہاں پر مکھیاں مارتا رہتا ہے ۔اس عملے سے الیکشن پریزائیڈنگ کا کام لیا جا سکتا تھا۔دراصل نیتوں میں ہی فتور ہے اور ایک کروڑ سے زائد محب وطن پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنا گذشتہ اور موجودہ رجیم کی اولین ترجیح تھی۔
الیکشن کی گہماگہمی کے دوران ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی لہر نے ہر مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں کو نہ صرف پریشان کر دیا بلکہ ایک سوچ غالب آنے لگی کہ کہیں خدا نخواستہ پاکستان کی سلامتی کو خدشات تو لاحق نہیں؟میں نے پاکستان اور دیارِ غیر میں بسنے والے پاکستانیوں سمیت سب کو متفکر پایا۔ہر ایک کی زبان پر یہی سوال تھا کہ اگر پاکستان میں الیکشن بھی پُرامن نہیں ہو سکتا تو پھر اس ملک کے مستقبل کا خدا ہی حافظ ہے۔یقینا پاک فوج بھی اس سارے عمل کا بغور جائزہ لے رہی ہو گی۔لیکن ہماری عسکری قیادت فی الحال پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کیے ہوئے ہے لیکن وہ اندرونی خلفشار سے بھی آگاہ ہے۔ اور وہ چند سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادت جو گذشتہ پانچ سال اقتدار کے مزے انجوائے کرتی رہیں اور جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے قومی خزانے کو جی بھر کر لوٹا وہ اس بدامنی کی لہر کو بہانہ بنا کر الیکشن سے فرار کا راستہ اختیار کرنا چاہتی تھیں۔مگر پاک فون کے کمانڈر انچیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کمال مدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لٹیروں کے ارادوں کو بھانپ لیااور الیکشن کے نتائج کو متنازعہ ہونے سے بچا لیا۔انہوں نے بڑے واشگاف الفاظ میں کہا کہ”الیکشن ہر صورت بروقت ہوں گے اور الیکشن کے دوران فوج گوں ناگوں حالات کے باوجود سکیورٹی مہیا کرے گی۔“ اس پیغام میں جنرل کیانی نے ملک کے تمام اداروں کو بھی یہ پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ آمریت اور جمہوریت پر سزا اور جزا کا ہی فیصلہ نہیں ہونا بلکہ اس کے محرکات کو بھی تلاش کرنا ہوگا۔انہوں نے واضح پیغام دیا کہ ماضی میں فوج کو ملک کی انتہائی خراب اور کشیدہ صورت حال کی وجہ سے ملک بچانے کے لیے ناپسندیدہ اقدامات بھی کرنے پڑے۔(جنرل کیانی کی اس وضاحت میں بہت سے سوالوں کے جوابات پوشیدہ ہیں)
الیکشن کی افراتفری کے دور میں جہاں ہر طرف سیاسی پارٹیاں اور امیدوار اپنے اپنے طور پر الیکشن کی کمپین چلا رہے ہیں کہیں وہ اپنے ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لیے نت نئی اور دلچسپ حرکات کر رہے ہیںوہیں لمبی لمبی تقریریں بھی ہو رہی ہیں۔دیواروں پر چاکنگ اور بڑے بڑے جہازی سائز کے سائن بورڈ آویزاں کرکے الیکشن کمیشن کے قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔خاص طور پر پاکستان کی 65سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ الیکٹرانک میڈیا پر ایک بھرپور انتخابی کمرشلز چلائے جا رہے ہیں۔ہر پارٹی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کوئی حربہ بھی استعمال کرنے کو تیار ہے اور ان پارٹیوں کے سپوٹران سوشل میڈیا جو کہ اس وقت ینگ جنریشن کا پسندیدہ ہتھیار ہے وہ استعمال کر رہے ہیں۔فیس بُک ،ٹوئٹر ،ای میل ،ویب سائٹ ،ٹیلی کال اور ایس ایم ایس کے ذریعے وہ طوفانِ بدتمیزی برپا کیے ہوئے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ اخلاقیات کی تمام حدوں کو عبور کر رہے ہیں۔اپنے مخالف امیدوار کی نجی زندگی تک کو بھی معاف نہیں کیا جا رہا ہے۔بلکہ کچھ ناکردہ گناہوں کی سزا دینے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیںاور اخلاق سے گِری ایسی حرکات ،الفاظ اور حربے استعمال کیے جا رہے ہیں کہ الحفیظ الامان ۔سوشل میڈیا پراس تحریک کو ایک نظر سے مثبت بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ سمیت کئی ممالک میں سوشل میڈیا کا استعمال کرکے عوامی انقلاب لا چکے ہیں مگر اس کے منفی استعمال سے نسلوں کانسل در نسل خراب ہونے کا بھی خدشہ موجود رہتا ہے اگر آپ فیس بُک پرپاکستان میں جاری الیکشن مہم کو دیکھیں تو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے علاوہ اور ایک دوسرے کی جعلی تصویریں بنا کر اپنے مذہب اور آئین کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ کیا ہمارے معاشرے میں اعتدال کا عنصر کہیں بھی موجود نہیں؟کیا ہم ایک اعتدال پسند معاشرے اور افراد کی طرح اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رویہ نہیں اپنا سکتے؟ہماری یوتھ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ نتائج حاصل کرنے کے لیے حرام حلال میں فرق کی گنجائش رکھنا ہوگی۔
گذشتہ چند دنوں سے مجھے دنیا بھر سے دوستوں کے پیغامات ملنا شروع ہوئے ہیں اور سب پوچھ رہے ہیںکہ اچانک رحمان ملک صاحب کی واپسی کیسے ممکن ہوئی ۔ ہاں میں پھر سوچتا ہوں تو واقعی میں دیکھتا ہوں کہ پچھلے کچھ ہفتوں سے رحمان ملک صاحب پردہ سکرین سے غائب تھے۔ دراصل وہیل مچھلی جب منوں اور ٹنوں کے حساب سے خوراک نگل کر آرام کی غرض سے ساحل پر ”پلسیٹے“ کھاتی ہے تو اسی طرح ملک صاحب اور کابینہ کے دیگر وزراءبھی مال ہضم کرنے کے لیے اور لوٹا ہوا مال غنیمت محفوظ مقام پر پہنچانے کے لیے ہماری نظروں سے غائب ہوئے (یہ وہی رحمان ملک صاحب ہیں جنہوں نے محکمہ داخلہ میں ہزاروں غیر قانونی بھرتیاں کیں اور صدام حسین کے دورمیں رحمان نے ملک نے اپنے موجودہ حکمران دوستوں کے ساتھ مل کر ایک کمپنی بنائی اور اقوام متحدہ کے آئل فار فوڈپروگرام کے تحت کروڑوں ڈالر کمائے )اب جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی ساری قیادت بشمول چیئرمین غائب ہے تو پارٹی کے موجودہ والی وارثوں کو کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جو الیکشن کمپین کو دیکھ سکے اور جھوٹ بولنے میں کماحقہ مہارت رکھتا ہواور یہ تو قارئین کو علم ہی ہوگا کہ رحمان ملک سے زیادہ جھوٹ اس کرہ ارض پر کوئی نہیں بولتا اور موصوف کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ایم کیو ایم پر اتھارٹی رکھتے ہیں۔گذشتہ پانچ سالوں میں ایم کیوایم درجنوں دفعہ ناراض ہوئی اسے مناکر واپس لانے کا فن صرف رحمان ملک کو ہی حاصل ہے۔اس لیے الیکشن سے چند دن پہلے رحمان ملک صاحب کا منظر آنا کسی ”اچنبھے “کی بات نہیں بلکہ یہ سارا ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن