خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
اب جبکہ ہم ایک بار پھر انتخابات کی طرف رہے ہیں تو اس مرحلے پر ہمارا کردار کیا ہونا چاہیے۔ پاکستانی عوام کو ایک بار پھر اپنے نمائندوں کے انتخاب کا موقع ملے گا۔ موجودہ حکمرانوں تمام سیاسی پارٹیوں اور خود عوام کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس نازک مرحلے پر پوری طرح چوکس اور بیدار ہیں اور ہر صورت میں منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں۔ کیونکہ ان انتخابات کے ساتھ پاکستان کے مستقبل کا بڑا ہی گہرا تعلق ہے۔ اگر خدا نخواستہ انتخابات ملتوی ہوئے تو یہ پاکستان کے لئے بہت نقصان دہ بات ہو گی۔
آج ہم ایک ایسے مرحلے پر کھڑے ہیں جہاں اصلاح احوال کا بہت بڑا چیلنج ہمارے سامنے ہے۔ وقت ہمیں آواز دے رہا ہے۔ ہمیں ایک بار پھر موقع مل رہا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو صحیح لائن پر ڈال دیں۔ اور وقتی فوائد اور ذاتی مفادات سے دست کش ہو کر مستقبل کی منصوبہ بندی کر لیں۔ اگر یہ موقع بھی ضائع ہو گیا تو پھر ہم سے زیادہ عاقبت اور کوئی نہ ہو گا۔ قوم نے ایک بار پھر پانچ سال کے لئے اپنے مقدر کافیصلہ کرنا ہے۔ ہمیں بہتری کا موقع مل رہا ہے۔ اس موقعے کو سیاست بازی اور مخالفت برائے مخالفت جیسے منفی رویوں کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ اب حکمرانوں لیڈروں اور سیاستدانوں کو وطن کی خدمت اور عوام کے مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ خود عوام کو بھی پوری طرح سنجیدہ ہو جاناچاہیے۔ بہتری صرف اسی طریقے سے ہوسکتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی شناخت اور مقصد کی طرف توجہ دیں۔ زندہ و بیدار قوم ہونے کا ثبوت پیش کریں اور ماضی کے تمام غلط رویوں سے اجتناب کا راستہ اپنائیں ۔ہمیں اندرونی و بیرونی حالات اور ملک کو در پیش تمام تر خطرات کا ادراک کرتے ہوئے ان کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ آنے والے انتخابات اس سلسلے میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں بشر طیکہ حکمران لیڈر اور عوام تینوں متحد اور یکجان ہو کر حالات کو بدلنے کا پختہ عزم کر لیں۔ پاکستانی قوم کو اپنے مفادات بچانے ہیں۔ اپنی سرحدوں کا تحفظ کرنا ہے۔ عالمی شاطروں کے پھیلائے ہوئے ان خاردار تاروں کو صاف کرنا ہے۔ جنہوں نے پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کو شدید متاثر کر رکھا ہے۔
اس بات کا پتہ تو انتخابات میں ہی چلے گا کہ سیاستدانوں اور لیڈروں میں کیا تبدیلی آئی ہے اور انہوں نے گزشتہ حالات واقعات اور تجربات سے کیا کچھ سیکھا ہے۔ وہ عوام کے سامنے ان کے مسائل کا کیا حل لے کر آتے ہیں یہ آنے والے انتخابات کا ایک اہم نکتہ ہے۔ دینی قیادتوں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے۔ کہ زبانی زبانی اسلامی نظام کے نفاذ کے نعرے اور دعوے اب انتخابات میں کامیابی کی ضمانت نہ بن سکیں گے۔ ساری پارٹیوں اور قیادتوں کو متفق ہو جانا چاہیے کہ آئندہ نظریہ پاکستان کے خلاف اور آئین سے ماور ا کسی اقدام کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ بے مقصد ہنگامہ آرائیوں ذاتی گروہ بندیوں وقتی منفعتوں اور تفرقہ بازیوں سے پرہیز کیا جائے گا اور جو بھی جیت کے آئے اسے اقتدار کی مدت پوری کر نے کا موقع دیا جائے گا۔ عوام جن لوگوں پر اپوزیشن کی ذمہ داری ڈالیں وہ مخالفت برائے مخالفت کا فرسودہ طرز عمل اپنانے سے باز رہیں حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھیں اور اس بات کی نگرانی کریں کہ اب ملک میں نہ تو دستور سے ماورا کوئی اقدام ہونے پائے اور نہ ہی قومی مفادات کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جائے۔
ہماری جمہوریت کا تہذیبی ڈھانچہ تہذیب و شرافت کے بجائے و شنام طرازی اور ایک دوسرے کی کردار کشی پر اس حد تک استوار ہو چکا ہے کہ ہم سیاسی اختلافات کو دین ایمان کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور ہر جماعت اس انداز سے میدان سیاست میں صف آراءہوتی ہے کہ گویا معرکہ ح قو باطل برپا ہے یا اسلام اور کفر کا قابلہ ہو رہا ہے۔ ہمارے سیاسی اختلافات عقائد کا روپ دھار لیتے ہیں۔ اور لوگوں کے دل اس حد تک خاص طور پر سیاسی کارکنوں کے ذہن اتنے پختہ کر دیئے جاتے ہیں کہ دشمنیاں ارضی نہیں رہتیں بلکہ دائمی ہو جاتی ہیں دل ایسے پھٹتے ہیں کہ جڑنے کا نام نہیں لیتے۔ گفتگو کے انداز اتنے تلخ اور ایک دوسرے کے خلاف جھوٹ کا انبار اتنا گرانبار ہو جاتا ہے کہ مدتوں اس کی گرانی دور نہیں ہو پاتی۔ جیتنے والے اپنے آپ کو فرشتے قرار دیتے ہیں۔ اور ہارنے والے یعنی اپوزیشن مسلسل جیتنے والوں پر بے ایمانی اور دھاندلی کا الزام لگاتی رہتی ہے۔ ان منفی رویوں کی اصلاح کی طرف توجہ دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
انتخابات کی صورت میں عوام میں ہم آہنگی اتحاد و یکانگت اور قومی سوچ پیدا رکرنے کا ایک بہترین موقع میسر آتا ہے۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں کو قومی سوچ پروان چڑھانے کا فریضہ دیانتداری سے انجام دینا چاہیے۔ جو چیز نا پسندیدہ ہے اور جس کا خاتمہ ضروری ہے وہ علاقے زبان برادری یا فرقے کے نام پر ووٹ مانگنا ووٹ دینا ہے۔ یہ سراسر ایک تفریقی عمل ہے۔
آخر میں ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو آنے والے انتخابات میں ایک خوشگوار انقلاب کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر سابقہ غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعادہ نہ کریں۔ اس مرحلے پر ہمیں یہ ازلی وابدی اصول یاور رکھنا چاہیے کہ....
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا