آرٹیکل 6 پر عملدرآمد۔۔۔ جی اوئے شیرا!
جوں جوں انتخابات کا دن قریب آ رہا ہے انتخابی منظرنامہ اسی طرح واضح ہوتا چلے جا رہا ہے اور دھند بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ پنجاب نے مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین جاری انتخابی دنگل کے برعکس پیپلزپارٹی نے بھی سیاسی ملبے سے اپنا سر باہر نکالنا شروع کر دیا ہے اسکے پنجاب میں کچھ اثرات جنوبی پنجاب میں نظر آنے لگے ہیں۔ اندرون سندھ کی سیاسی تصویرکشی تاحال ملکی سطح پر ابرآلود ہے تاہم سندھ میں دس جماعتی اتحاد کی صورت میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان سیاسی دنگل کسی حد تک کچھ نہ کچھ ضرور واضح کرتا ہے۔ سندھ میں نوازشریف دس جماعتی اتحاد کی بدولت پیپلزپارٹی کو حقیقتاً ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے بارے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تو کہہ دیا ہے کہ بلوچستان میں شیر ہے ہی نہیں شکار کیا کروں لیکن عملی طور پر تحریک انصاف خود بلوچستان میں نہیں ہے اور اگر بلوچستان میں اس وقت کسی جماعت کی واضح طور پر ہرطرح کے اتحاد اور بلوچی عوام کی سوچ کے تناظر میں دیکھا جائے تو صرف مسلم لیگ(ن) ہی وہ واحد جماعت بلوچستان میں نظر آ رہی ہے جسے وفاق کی علامت جماعت قرار دیا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کا جو حشر نشر بلوچستان میں سابقہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے پانچ سال کے دوران کر دیا ہے اس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو بلوچستان میں اپنے سیاسی جنازے کو کاندھا دینے کی بھی نوبت میسر نہیں آئی۔ جہاں تک صوبہ خیبر پی کے کا تعلق ہے تو صوبہ خیبر پی کے میں آج بھی اے این پی اور جمعیت علماءاسلام فضل الرحمن گروپ کی اپنے اپنے طور پر مخصوص سیاسی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بظاہر صوبہ خیبر پی کے میں بھی اصل سیاسی دنگل مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان گنا جا رہا ہے مگر صوبہ خیبر پی کے کی جو تاریخی سیاسی حیثیت ہے اس نبض کا اگر جائزہ لیا جائے تو صوبہ خیبر پی کے میں عمران خان نے کیونکہ صرف پانچ پرانے سیاسی چہروں کے علاوہ تمام نئے اور نومولود سیاسی چہروں کو کس صوبہ میں میدان انتخاب میں اتارا ہے لہٰذا امیرمقام کے مسلم لیگ(ن) میں آ جانے کے بعد اور یہاں سے کیپٹن صفدر کے انتخابات میں اترنے کی بدولت مسلم لیگ(ن) کو عوامی حلقوں میں بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ ہاں البتہ تحریک انصاف کے فیور کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابی تاریخ نزدیک آنے کے ساتھ ساتھ سیاسی پنڈت واضح کرنے لگے ہیں کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) ایک سو سے زیادہ قومی نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ تحریک انصاف اپنی سیاسی انتخابی اننگز کے بھرپور مظاہرے کے نتیجہ میں چالیس یا پھر اس سے کہیں اوپر یا نیچے قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں کھڑی محسوس کی جا رہی ہے۔ تاہم اس وقت سب سے بڑا سیاسی بریک تھرو اس وقت سامنے آ چکا ہے جب مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف نے 2008ءکے انتخابات سے قبل پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اور سابقہ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے جاں بحق ہونے سے پہلے انکی طرح عوام میں گھل مل کر طوفانی طور پر بھرپور عوامی رابطہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ میاں محمد نوازشریف کھل کر عوام میں نکل آئے ہیں وہ انقلاب کی باتیں بھی کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا ایک مرتبہ پھر نعرہ بلند کر دیا ہے۔ وہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی پانچ سالوں تک مایوس کن کارکردگی پر بھی تنقید کے تند وتیز تیر برسانے لگے ہیں۔ انہوں نے پرویزمشرف کے بارے میں بھی لب کشائی شروع کر دی ہے۔ انہوںنے اعلان کیا ہے کہ مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے اور ہماری حکومت بنی تو آرٹیکل چھ پر عمل کے پابند ہوں گے۔ پنڈورا بکس کھلتا ہے تو کھلنے دیں ہم پر سعودی عرب کا کوئی دبا¶ نہیں، جرنیلوں، ججوں اور سیاست دانوں سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ اس وقت ملک کے تین صوبوں میں دہشت گردی کی صورت میں جو قتل و خون کی بہیمانہ ہولی کا سلسلہ جاری ہے اس کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو میاں محمد نوازشریف اور اب عمران خان اپنے انتخابی جلسوں کے آخری مرحلے میں بلوچستان اور دوسرے صوبوں کے دورے کے دوران اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر سیاسی زندگی کیلئے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ بالخصوص میاں نوازشریف کو عالمی طاقتیں بھی ایک قومی سیاسی شخصیت کے طور پر دیکھتی ہیں کہ وہ دو مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ جلاوطنی کاٹنے کے دوران ملکی اور عالمی سیاست کے رموزواوقاف سے بہت زیادہ آشنائی حاصل کی ہے۔ وہی آشنائی جو محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی کے خاتمے کا باعث بن گئی تھی۔ میاںمحمد نوازشریف جس انداز میں انتخابی جلسے کرتے ہوئے عوامی رابطہ مہم کو تیز کر رہے ہیں خیال کیا جا سکتا ہے کہ پرویزمشرف کیخلاف اصولی نعروں اور پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے اپنے ماضی کے اعلان کو دہرانے کے بعد مسلم لیگ(ن) واضح طور پر قومی اسمبلی میں ایک سو سے بھی کہیں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اگر مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف کا سیاسی جادو ایک تیزہوا کی صورت میں جنوبی پنجاب میں چل نکلا تو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو اپنے بڑے بڑے برجوں کو قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اندرون سندھ میاں محمد نوازشریف نے جو دس جماعتی اتحاد کیا ہے اس نے پیپلزپارٹی کیلئے اب تک کی صورتحال کے مطابق اس کیلئے یہ آخری انتخاب بنا دیا ہے۔ بلوچستان میں بھی پیپلزپارٹی آ¶ٹ ہے اور مسلم لیگ(ن) ٹاپ پر ہے۔ پنجاب میں بھی مسلم لیگ(ن) نمبرون سیاسی جماعت جا رہی ہے۔ صوبہ خیبر پی کے کی بھی یہی صورتحال ہے۔ میاں محمد نوازشریف نے آئین کے آرٹیکل چھ کی بات کر کے مشرف کیخلاف اپنی حکومت قائم ہونے کی صورت میں عملدرآمد کرنے کا جو نعرہ بلندکیا ہے اس پر بلاشبہ قوم کی اکثریت کھل اٹھی ہے اور ہرطرف شیر، شیر ہو رہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ میاں محمد نوازشریف کو اپنی سیکورٹی کے معاملات کو مزید مضبوط اور خاطرخواہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ملک اس وقت انتہائی حساس دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک فوجی ڈکٹیٹر اور بدتر آمر جنرل(ر) پرویزمشرف کا گریبان قانون کے ہاتھوںمیں ہے۔ آئین کی بالادستی کی بات ملک کی سب سے بڑی عدالت کر رہی ہے جس نے نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کا عہد کر رکھا ہے اور اسی عہد کی بدولت چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی جمہوریت کی مضبوطی کی باتیں کر رہے ہیں۔ اس آزاد عدلیہ نے جمہوریت کے پودے کو ایک تن آور درخت بنا دیا ہے اب عام انتخابات کے بعد جمہوریت کا یہ تن آور درخت سایہ فراہم کرنے کے قابل ہونیوالا ہے اس لئے میاں محمد نوازشریف نے پرویزمشرف کے بارے میں آئین کے آرٹیکل چھ پر عملدرآمد کی جو بات کی ہے اس سے ملک میں آئین اور قانون کی علمداری مزید مضبوط اور مستحکم ہونے کے واضح اور روشن اشارے بھی سب کو مل گئے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کی آئندہ حکومت وفاق میں قائم ہو گی اس کا تمام سیاسی پنڈتوں، تجزیہ نگاروں اور خود عوام کو یقین ہے لہٰذا میاں محمد نوازشریف کے حالیہ خطاب پرجوش تقاریر اور تیزتر عوامی رابطہ مہم کے بعد جہاں ہرطرف نوازشریف زندہ باد کے نعرے بلندہو رہے ہیں وہاں انہیں اپنی سیکورٹی کے بارے میں بھی فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا مستقبل ہرحال میں روشن ہو گا اور اس طرف سفر شروع ہو چکا ہے جس کا اصل سہرا آزاد عدلیہ کے سر جاتا ہے۔ آزاد عدلیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان زندہ باد۔