جنرل پرویز مشرف کو وہ ” وقت “ بھی یاد کرنا چاہئے
ایک وہ وقت تھا جب جنرل مشرف وردی میں انتہائی طاقتور آرمی چیف ہوا کرتے تھے وہ ماتحت جرنیلوں سے تو اشارہ آبرو اور سر کے ہلانے سے ہی اپنی منشا منوا لیتے تھے لیکن وہ اپنے باس جو سیکرٹری دفاع ہوتے ہیں ان کو بھی رسوا کر دیتے تھے اس وقت سیکرٹری دفاع چودھری نثار علی خان کے بھائی جنرل افتخار علی خان مرحوم ہوتے تھے۔ ثقہ راوی جو زندہ سلامت ہیں کی روایت ہے کہ آرمی چیف مشرف کے چیف آف آرمی سٹاف کے دفتر میں سیکرٹری دفاع جنرل افتخار علی ملنے گئے تو دفتر میں جرنیل مشرف نے ان کو کھڑے کھڑے پوچھا کہ کیا کام اور ایجنڈا ہے؟ بیٹھنے کا نہیں کہا نہ چائے نہ مہمان داری نہ سینئرز کا احترام ۔ ”جنرل افتخار ہکا بکا“ رہ گئے تھے جنرل مشرف نے کہا کہ میں یہ معاملات دیکھ لوں گا اور ابھی مجھے کوئی ایمرجنسی ”کام“ ہیں پھر ملاقات کرینگے اور جنرل (ر) افتخار علی اپنا سا منہ لیکر غصے میں مشرف کے کمرے سے باہر نکل گئے۔ چیف آف آرف سٹاف کی آئینی طاقت اور اختیار بے پناہ ہے اس وجہ سے سینئر جرنیل بھی چیف سے الجھنے یا مرضی کیخلاف بات کرنے سے عموماً بچتے تھے۔ سارا پاکستان مشرف کے حکم پر چلتا تھا ایک آج یہ بے بسی‘ بے کسی‘ بے عزتی تنہائی‘ عدالت کے اندر، باہر راستے میں غصے سے بھرے عوامی طبقات جوتا پھینکنے سے لے کر گندی زبان اور اشاروں کا استعمال کر رہے ہیں‘ جنرل (ر) مشرف کے خلاف مقدمات کی کارروائیوں گھر کو سب جیل قرار دینا‘ ایف آئی سے بے نظیر قتل کیس میں تفتیش و حوالگی‘ گرفتاری سب مشرف کیلئے چہرے پر نادانی‘ پریشانی‘ پسینہ پونچھنا‘ منہ سرخ ہونا‘ عدالت میں پیش ہو کر گریڈ 18کے افسر کے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہونا‘ انہیں سیلوٹ کرنا اور صحافیوں کو یہ کہنا کہ عدالت میں پیشی سے بے عزتی محسوس ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ سب رسوائی کے کام ہیں جو اس جرنیل کے اپنے غیر قانونی‘ غیر آئینی‘ سخت ایکشن کے نتائج ہیں ان قانون شکن‘ قوم کے منتخب وزیراعظم کو‘ نامزد آرمی چیف جنرل ضیاءالدین خواجہ کو اور عدالت عظمیٰ کے سینئر ججوں کو اپنا ”غلام“ یا ”گھڑے کی مچھلی“کا درجہ دینے والے شخص کو (مشرف) آج قید کے دوران یہ یاد کرنا چاہئے کہ 12اکتوبر 1999کو خود انہوں نے قانونی وزیراعظم محمد نواز شریف‘ قانونی آرمی چیف ضیاءالدین خواجہ کو اپنے نائب جرنیلوں (جنرل محمود احمد اور عزیز احمد وغیرہ) کے ذریعے گرفتار کروا کر قید تنہائی‘ 10تا 15فٹ کے کمرے یا جیل (اٹک قلعہ) وغیرہ میں پھینک دیا تھا کہ وہ یہاں گھٹ گھٹ کر مر جائیں یا مفلوج ہو جائیں خصوصاً جنرل ضیاءالدین کو فوجی میس کے 10فٹ کے کمرے میں توہین آمیز سلوک کے بعد رکھا گیا جہاں ان کو 660 دن قید رکھا اور اس دوران وہ قلبی وہ جسمانی بڑی بیماریوں کا شکار ہو گئے نہ ملاقات‘ نہ ٹی وی‘ نہ اخبار‘ نہ فون اور آخری گھٹیا حکم یہ دے ڈالا کہ ان کے فوجی ملازمت (38 سال) کے فوجی فوائد جو ہر ایک کو ملتے ہیں مع پینشن ضبط اور بند کردیئے۔ اب جنرل (ر) مشرف کو منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے کئے گئے غیر انسانی‘ غیر قانونی‘ غیر اخلاقی‘ غیر آئینی ”سلوک“ کو یاد کرنا چاہئے قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ”ہم ان (لوگوں) کے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں“یہ آیت کا مفہوم ہے آج مشرف کے برے دن ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کی عوامی اکثریت کی حامل جمہوری حکومت کو ختم کرنا اور ان کو قید میں ڈال کر دہشت گردی کی غیر قانونی سزائیں دینا، فوجی افسران (جونیئرز) و جوانوں سے ”بے عزت“ کرانا، ہتھکڑی، پہرے، قید تنہائی جہاں کالے کمروں میں سورج کی کرن بھی نہ آئے، غلیظ جیل، پیشاب، کیڑے مکوڑے، مچھروں کا ماحول، نہ بیوی نہ ماں نہ اولاد، نہ والد کی آہیں، آنسو، فریادیں فرعون صفت جرنیلوں کے رحم پر آماد کر سکیں نہ ہی انصاف پر، عدالتیں بھی اپنی، جج بھی اکثر اپنے، فوجی عدالتیں، پولیس، کمانڈوز، خفیہ اداروں کے افسران کی ”سختیاں“ میاں محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف نے برداشت کیں۔ فوجی افسران، جو اپنے حلف، ڈسپلن، بڑے جرنیلوں کی حکم بجاوری کے قانونی تقاضوں پر عمل کرتے تھے کہ ”مجبور“ تھے۔ بہرحال مشرف کو وہ وقت آج یاد کرنا چاہئے۔ ابھی تو ”مشرف“ سے نرم سلوک کیا جا رہا ہے جو کہ ملکی قانون و عدالتی نظام کے احکامات اور ”روایتوں“ سے ہٹ کر ”خصوصی سلوک“ کہلاتا ہے اگر آگے بڑھتی مختلف عدالتی کارروائیوں میں پولیس، ایف آئی اے یا کسی دیگر قانونی ادارے کی ”عوامی تفتیش“ جیسا منظر بن گیا تو پھر انہیں پتہ چلے گا کہ کسی پر ناجائز ظلم کیسے کیا جاتا ہے ابھی تو صرف وہ عدالت (چھوٹی) سے فرار ہو کر اپنے گھر گئے آئندہ کی منتخب حکومت (زرداری، نواز شریف یا عمران خان) 20 مئی کے بعد رینجرز، ذاتی گارڈز، پولیس کو نئی پالیسی و قانونی ضابطے پرحکم دے کر ”پابند“ کر سکتی ہے اگر صدر زرداری یا ان کے منتخب وزیراعظم یا میاں نواز شریف یا ان کی حکومت نے عدالتی و تقتیشی اداروں کو مکمل انصاف فراہم کرنے اور کسی قسم کے عدالتی و ملکی ضوابط میں ”نرمی“ کے فیصلے لے لئے تو پھر مشرف کو اسی طرح عدالتی کارروائیوں کا ”نشانہ“ (قانونی) بننا پڑیگا جیسے بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، میاں محمد شریف، میاں شہباز شریف وغیرہ بنتے رہے ان کو وہ وقت بھی یاد رکھنا چاہئے کہ میاں محمد شریف مرحوم کے نماز جنازہ میں میاں فیملی کو شرکت کی اجازت نہ دی تھی۔ قید تنہائی اور مسلسل بڑی ”TENTIONS“ نے میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کو جسمانی طور پر ”آدھا“ کمزور کر دیا تھا آج بھی ٹی وی پر انکی پرانی فلمیں چلتی ہیں۔ آج وقت بدل رہا ہے اگر عوام نے میاں برادران کو ”تخت اسلام آباد“ تک پہنچا دیا تو پھر آئینی مقدمات، بگٹی کیس، لال مسجد حملہ کیس، جامع حفصہ کو خون میں نہلانا ‘کارگل آپریشن اور کئی بڑے ”±CASE“ چلنے کا امکان ہے۔ البتہ اس سارے ”احتساب“ کے نتیجے میں ملکی آئین، شدید عوامی جذبات، آئین و قانون کی بالا دستی، عدالتوں کے معاملات کو آزادانہ چلنے دینا، جیسے معاملات میں ”ٹھنڈے دل“ سے آگے بڑھنا ہے۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں ملکی ”نظام“ درست سمت میں قائم کرنا ہی پاکستان سے وفاداری ہے۔