ہائیکورٹ نے ”شہباز ملک قیوم ٹیپ اشتہار“ کیخلاف مسلم لیگ (ن) کی درخواست نمٹا دی
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہباز شریف اور سابق جسٹس ریٹائرڈ ملک محمد قیوم کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت پر مشتمل اشتہار کے خلاف دائر رٹ درخواست واپس لئے جانے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ فاضل عدالت نے مذکورہ اشتہار کو روکنے کا عبوری حکم بھی واپس لے لیا۔ گزشتہ روز پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کی طرف سے بیرسٹر اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کی طرف سے اشتہار روکنے کے بارے میں عبوری فیصلہ کی سخت مخالفت کی۔ انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ فاضل عدالت کی طرف سے دوسرے فریق کو سنے بغیر حکم امتناعی جاری کرنا درست نہیں جس پر فاضل عدالت نے قرار دیا کہ کسی بھی فریق کو نوٹس دیئے بغیر حکم امتناعی جاری کرنے کا بنچ کو اختیار ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ الیکشن کمشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی ایسے اشتہار پر پابندی ہے جس سے ملکی خودمختاری متاثر ہوتی ہو۔ اس اشتہار سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ تو15سال پرانا کیس ہے ۔یہ ٹیپ2001ءمیں سپریم کورٹ میں آصف علی زرداری کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران منظر عام پر آئی۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ ریکارڈنگ سنی گئی۔ سپریم کورٹ اس ٹیلی فونک گفتگو کو شہادت کی طور پر قبول کر چکی ہے اس طرح اسے عوام کے سامنے پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی قانونی قدغن ہے۔ اتنا عرصہ گذرنے کے باوجود آج تک مسلم لیگ (ن) نے اس کی تردید کی نہ ہی اسے کسی عدالت میں چیلنج کیا۔ اس ٹیپ کے منظر عام پر آنے کے باعث اعلیٰ عدلیہ کے دو ججز کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ فاضل عدالت خود ٹیپ سن لے جس پر فاضل عدالت نے قرار دیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ ٹیپ کا ذریعہ کیا ہے اس پر پیپلز پارٹی کے وکلاءنے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ یہ ٹیپ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ اس موقع پر لطیف کھوسہ شہباز شریف کی مختلف ججوں کے مختلف مواقع پر ہونیوالی بات چیت اور ان پر فیصلوں کے لئے دباﺅ ڈالنے کے حوالے سے کئی مبینہ ٹیپ بھی لے کر آئے تھے لیکن عدالت نے انہیں چلانے کی اجازت نہیں دی۔ درخواست گذار کے وکلاءنے کہاکہ میاں شہباز شریف کے خلاف بے بنیاد اشتہار چلائے جانے کا الیکشن کمشن نے نوٹس لے لیا ہے لٰہذا وہ اپنی درخواست واپس لیتے ہیں۔ فاضل عدالت نے درخواست واپس لئے جانے کی بنیاد پر نمٹا دی اور اشتہار روکنے کا عبوری حکم واپس لے لیا۔دریں اثناءاحاطہ عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ شہباز شریف کے پاس پتہ نہیں کیا جادو ہے کہ ان کا کیس عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد بھی سنا جاتا ہے۔ عدالتیں شریف برادران کو ریلیف دے رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے درخواست واپس لے کر پسپائی اختیار کی اگر عدالت میں شہباز شریف اور ملک قیوم کے درمیان گفتگو کے اشتہار کا فیصلہ ہوتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دلائل اتنے جاندار تھے کہ ان کو سن کر مسلم لیگ (ن) نے درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا جو ان کی پسپائی کے مترادف ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اصغر خان کیس کی بنیاد پر شہباز شریف کی اہلیت چیلنج ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے این آر او کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کےلئے تو بنچ تشکیل دے دیا۔ جس کے نتیجے میں ایک وزیر اعظم کو فارغ کر دیا گیا مگر اصغر خان کیس میں عملدرآمد کےلئے بنچ نہیں بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی اصغر خان کیس کی بنیاد پر شہباز شریف کی اہلیت کو چیلنج کرنے پر ضرور غور کرے گی۔ اس موقع پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میاں شہباز شریف درخواست تو قابل پذیرائی ہی نہیں ہونی چاہئے تھی کیونکہ اس میں قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ الیکشن کمشن نے رات1بجے ان سے اور راجہ پرویز اشرف سے نوٹس کی تعمیل کروائی۔ حقیقت یہی ہے کہ شریف برادران کےلئے کچھ اور قانون ہوتا ہے اور پی پی پی کےلئے کوئی اور قانون ہے۔ سپریم کورٹ بھٹو ریفرنس کا فیصلہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے جس طرح اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور احتساب بنچ کے جج کو حکم دیا تھاکہ اگر تم نے ہمارے حکم پر عمل نہ کیا تو وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے کیا آئین کی دھجیاں اڑانے پر ان کے خلاف آرٹیکل 6 کا اطلاق نہیں ہوتا؟ شریف برادران نے آصف زرداری اور بے نظیر کی جائیداد قرق کرنے کا حکم دینے کیلئے عدالتوں پر دباﺅ ڈالاتھا اور یہ باتیں ٹیپس میں شامل ہیں ۔آرٹیکل 6 کی یہ خلاف ورزی ہوئی ہے۔