قتلِ بے نظیر میں خُفیہ ہاتھ؟
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں، ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر، چودھری ذُوالفقار علی کے قتل پر ،لندن میں مقیم ۔” نوائے وقت“۔ کے نمائندہ خصوصی جناب خالد ۔ایچ۔لودھی کا نُقطہ نظر۔ یہ ہے کہ ۔” پاکستان پیپلز پارٹی کے جو ،خُفیہ ہاتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوّث تھے ، انہی خُفیہ ہاتھوں نے ،چودھری ذُوالفقار علی کو قتل کر ایا ہے“۔ ” نوائے وقت“۔ میں 5 مئی کو شائع ہونے والی ان کی تجزیاتی رپورٹ میں، یہ دھماکہ خیز انکشاف کِیا گیا ہے کہ۔”محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل (27دسمبر2005ئ) کے دوسرے دِن۔ ”مَیں نے۔ (لندن میں پاکستان کے موجودہ ہائی کمشنر)۔ جناب واجد شمس اُلحسن سے ،موبائل فون پر، محترمہ کے قتل کاافسوس کرتے ہُوئے کہا تھاکہ ۔” مَیں رحمٰن ملک کو 100فی صد۔ اِس قتل کا ذمہ دار سمجھتا ہوں تو ،جناب واجد شمس اُلحسن نے کہا تھا کہ۔” مَیں بھی 110 فی صد رحمٰن ملک کو ہی محترمہ کے قتل کا ذمہ دار سمجھتا ہوں“۔ ایک بات پیشِ نظر رہے کہ ،جناب واجد شمس اُلحسن نے، جب لودھی صاحب کے سامنے (بقول اُن کے)رحمٰن ملک صاحب کو ، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا 110فی صد ذمہ دار ٹھہرایا تھا تو ، وہ لندن میں، پاکستان کے ہائی کمشنر نہیں تھے ،بلکہ ایک عام برطانوی شہری تھے اور ابھی جناب آصف زرداری نے بھی ( محترمہ کی مبّینہ وصیت کے مطابق)۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ نہیں سنبھالا تھا اورنہ ہی انہوں نے بلاول زرداری کو ۔”بلاول بھٹو“۔بنا کر انہیں پارٹی کا چیئرمین نامزد کِیا تھا ۔سیّد یوسف رضا گیلانی وزیرِاعظم منتخب ہو گئے اور اُس کے بعد جنابِ زرداری۔ صدرِ پاکستان۔پھِر جناب رحمٰن ملک وزیرِداخلہ اور جناب واجد شمس اُلحسن لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر بن گئے تو کسی نے بھی، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لِیا۔ یہی وجہ ہے کہ،اُس کے بعد، واجد صاحب نے رحمٰن ملک صاحب کو ،محترمہ کے قتل کا 110فی صد ذمہ دار نہیں ٹھہرایا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت ،جنابِ واجد کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا ۔ممکن ہے رحمٰن ملک صاحب کو ،محترمہ کے قتل کا 110فی صد ذمہ دار قرار دیتے ہوئے واجد صاحب ۔” وجد“۔ (حالتِ بے خودی ) میں ہوں۔واجد صاحب نے گھاٹ گھاٹ کا ۔” مِنرل واٹر“ پِیا ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ صدر زرداری کو، جناب رحمٰن ملک اُسی طرح عزیز ہیں جِس طرح کہ، سُلطان محمود غزنوی کو اپنا غُلام ایاز ملک عزیز تھا ۔ اب جناب خالد ۔ایچ لودھی کو اپنے مﺅقف کی صداقت کے لئے، گواہ اور ثبوت پیش کرنا ہوں گے کہ واجد اُلحسن صاحب نے واقعی یہ کہا تھا کہ۔” رحمٰن ملک صاحب ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے 110فی صد ذمہ دار تھے؟“۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد۔ چیئرمین ذُوالفقار علی بھٹو کے ۔©"Talented Cousin"۔جناب ممتاز علی بھٹو کا ،فوری ردِّعمل یہ تھا کہ ۔” سیدھا سادہ فوجداری کیس ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ اِس قتل کا فائدہ کِس کو ہُوا ہے ؟“۔©©©ظاہر ہے کہ اِس قتل کا فائدہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرّف کو تو ذرّہ بھر بھی نہیں ہُوا ۔ا نہیں تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے N.R.O کرنے کا نتیجہ کیا نکلے گا ؟۔جب موصوف صدارت سے مستعفیٰ ہو کر پاکستان سے رُخصت ہو رہے تھے تو N.R.O کرانے والی ۔” جمہوریت پسند قوتوں“۔ کو دِل ہی دِل میں کوستے ہُوئے اپنے قریبی دوستوں سے ضرور کہہ رہے ہوں گے کہ ۔۔۔
” یہ جانتا اگر ، تو لُٹاتا ،نہ گھر کو، مَیں “
محترمہ بے نظیر بھٹو۔ 10اپریل 1986ءکو بھی ،کسی غیر اعلانیہ اور غیر تحریری N.R.Oکے ذریعے ہی، جلا وطنی ترک کر کے، وطن تشریف لائی تھیں ،لیکن اُس کے بعد 2 سال4ماہ اور7دِن بعد،صدر جنرل ضیاءاُلحق ہوئی حادثے میں مارے گئے ۔یہ N.R.O بھی عجیب چیز ہے ۔کسی نہ کسی فریق کی جان لے لیتا ہے ۔جنرل (ر) پرویز مشرّف ،بھلے چنگے، گارڈ آف آنرز لے کر، رُخصت ہو گئے تھے ،لیکن۔ موصوف۔ اپنی کتابِ زندگی کا دوسرا حِصّہ ۔لِکھنے کے لئے پھِر واپس آگئے ۔اِسے شُومئی بخت کہا جائے یا دِل ِلخت لخت ؟۔ ایک دَور تھا کہ جنرل(ر) پرویزمشرّف کی حیثیت ۔” پارس“۔ کی سی تھی ۔پارس ۔ایک ایسا پتھّر جِس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ جِس لوہے کوچھُو جائے وہ سونا بن جاتا ہے ۔جنرل صاحب نے، اپنے دَورِاقتدار میں سیاست کے کباڑ خانے میں پڑی ،کئی سکریپ نُما چیزوں کو، سونا بنا دِیا، لیکن اب وہ اپنے ہی گھر میںقید اُستاد شرف کا یہ شعر پڑھ کر گُنگُنا رہے ہوں گے کہ۔۔۔
” اے شرف ، انعام میں، سونے کی دیواریں بنیں۔۔۔ بیڑیاں میری ،بڑھا کر ، پارس، آہن گر ہُوا “
اب تو جنابِ پرویز مشرّف کی حالت یہ ہے کہ، اگر کوئی اُنہیں جنرل(ر) ضیاءاُلحق کے ہوائی حادثے میں جاں بحق ہونے کا ذمہ دار بھی قرار دے دے تو اُن کے وُکلاءکو صفائی پیش کرنے میں کافی مُشکل پیش آئے گی ،اِس لئے کہ جنرل صاحب سے کسی کو کوئی ہمدردی ہی نہیں ہے ،لیکن سابق وزیرِداخلہ ہوجانے کے بعد بھی جناب رحمٰن ملک کا ۔” استثناء“ ۔ ابھی ختم نہیں ہو ا ۔ ابھی تک پیپلز پارٹی کی ہائی کمان یا لوئر کمان نے ،اِس سوال کا جواب نہیں دِیا کہ آخر، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش کرنے والی اقوامِ متحدہ کی خصوصی ٹیم اور سکاٹ لینڈ یارڈ کو، جناب رحمٰن ملک تک رسائی کیوں نہیں دی گئی؟۔ 3دسمبر2012ءکو جناب رحمٰن ملک نے( وزیرِداخلہ کی حیثیت سے) اعلان کیا تھا کہ ۔“ مَیں 27دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر،اُ ن کے قاتلوں کو بے نقاب کر دوں گا “۔ 27دسمبر 2012ءکو، محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی تھی ،لیکن جناب رحمٰن ملک نے (نہ جانے کیوں؟) خاموشی اختیار کئے رکھی ،البتہ (اُس وقت تک پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین) جناب بلاول بھٹو نے چیف جسٹس آف پاکستان کو للکارتے ہوئے کہا ۔” مَیں پاکستان کے سب سے بڑے قاضی سے پوچھتا ہوں کہ۔ قاضی صاحب !کہ میری رانی ماں اور پاکستان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دی گئی ؟۔بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کے دوسرے قائدین ،محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کو ،انتخابی Issue نہیں بنا سکے ، اِس لئے کہ نہ صِرف ووٹر زبلکہ پیپلز پارٹی کے کارکن بھی سوال کرتے ہیں کہ ، صدر زرداری اور بلاول بھٹو ، محترمہ بے نظیر کے قتل کیس میں ابھی تک مدّعی کیوں نہیں بنے ؟۔ اب محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرّف گرفتار ہو کر شاملِ تفتیش ہیں،توکیوں نہ ،جناب رحمٰن ملک کو بھی گرفتار کر کے شاملِ تفتیش کِیا جائے؟اور سرکاری خرچ پر جناب واجد شمس اُلحسن اور جناب خالد۔ایچ۔لودھی کو بھی لندن سے طلب کِیا جائے اور قتلِ بے نظیر میں ملوّث خُفیہ ہاتھ کے دستانے اُتار کر ،اُس پر لگے، محترمہ بے نظیر بھٹو کے لہو کے دھبّے ،تلاش کر نے میں کامیابی حاصل کی جائے؟۔