افغان فوج کا پھر پاکستانی چوکی پر مارٹر خودکار ہتھیاروں سے حملہ‘ پاک فوج کی جوابی کارروائی ....
کابل (اے ایف پی + رائٹر + ایجنسیاں) افغان فوجیوں نے ایک بار پھر کسی اشتعال کے بغیر پاکستانی چوکی پر مارٹر گولے داغے اور خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی جس کے بعد پاکستانی فوجیوں نے جوابی فائرنگ کی۔ دوسری جانب افغانستان کے دفتر خارجہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس ”متنازعہ“ بارڈر پر مزید جھڑپیں ہوئیں تو پاکستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، پاکستان افغان سرحد پر دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے درمیان پھر شدید جھڑپوں کے بعد کابل اور اسلام آباد میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ چند روز قبل بھی دونوں ممالک کی فورسز میں جھڑپیں ہوئی تھیں جن میں ایک افغان اہلکار مارا گیا تھا جبکہ پاکستان کے دو اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ افغان صوبے ننگرہار کی حکومت کے ترجمان احمد ضیاءعبدالزئی نے دعویٰ کیا کہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب پاکستان نے گزشتہ جھڑپ میں تباہ ہونیوالے دروازے کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی۔ افغانستان کا دعویٰ ہے کہ یہ گیٹ اسکے علاقے میں بنایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نئی جھڑپوں میں بھاری اور ہلکے ہتھیار استعمال کئے گئے تاہم انہوں نے یہ بتانے سے انکار کردیا کہ اسکا آغاز کس نے کیا تھا۔ کابل میں ایک سینئر افغان عہدیدار نے تازہ سرحدی جھڑپوں کی تصدیق کی ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ جھڑپوں کا آغاز افغان اہلکاروں نے کیا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پاکستانی عہدیدار نے بتایا کہ افغان فوجیوں نے کسی اشتعال کے بغیر پاکستانی چوکی پر مارٹرز گولے داغے اور خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی جس کے بعد پاکستانی فوجیوں نے جوابی فائرنگ کی۔ ان جھڑپوں میں کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔ ایک اور پاکستانی افسر نے بتایا کہ فائرنگ کا یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔ دریں اثنا افغانستان سے جاری بیان کے مطابق کابل میں سینئر پاکستانی سفارتکار کو طلب کرکے انکے بقول سرحدی جھڑپ پر احتجاج کیا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گزشتہ ماہ برسلز میں دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کرانے کی نئی کوششوں کے سلسلے میں اجلاس بلایا تھا لیکن اسکے باوجود دونوں ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پاکستان نے افغان صدر حامد کرزئی کے ڈیورنڈ لائن سے متعلق بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیورنڈ لائن طے شدہ معاملہ ہے، اس پر بات کرنا دیگر مسائل سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔ دفترخارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ افغان مفاہمتی عمل کی حمایت کی ہے اور کرتا رہے گا۔ افغان صدر حامد کرزئی ماضی میں کئی مرتبہ طالبان سے مذاکرات کا کہہ چکے ہیں اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ مفاہمتی عمل کامیاب ہو۔ پاکستان نے ڈیورنڈ لائن سے متعلق افغانستان کا موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغان صدر کا طالبان کو ہتھیاروں کا رخ کسی اور جانب موڑنے کے مشورے پر تشویش ہے۔ ہم خطے میں قیام امن کے لئے مضبوط اور خوشحال افغانستان چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کامیابی کے لئے پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ پاکستان نے افغان صدر حامد کرزئی کے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے کے بیان پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ڈیورنڈ لائن حل شدہ معاملہ ہے اس پر دوبارہ بحث سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوسرے اہم مسائل پر تعاون سے توجہ ہٹ جائے گی۔ واضح رہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن افغانستان پر مسلط کی گئی ہے جسے کسی افغان حکومت نے تسلیم کیا نہ ہی کوئی حکومت آئندہ ایسا کریگی۔ دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ خطے میں جاری دہشت گردی اور شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور افغانستان اور دوسرے شریک فریقوں کو ملکر کام کرنا چاہیے۔ بیان کے مطابق ماضی میں افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان سے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کو کہا تھا جس کا پاکستان نے مثبت جواب دیا تھا۔ پاکستان منفی چیزوں پر توجہ دینے کے بجائے افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کی حمایت کرتا رہے گا۔ پاکستان افغان سرحد پر پاکستان کے چیک پوسٹ کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ گورسل چیک پوسٹ پر افغان سکیورٹی فورسز نے حملہ کیا تھا اس حوالے سے افغان حکام نے اشتعال انگیز بیان بازی بھی کی۔ بیان کے مطابق چیک پوسٹیں سرحد پر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے میں مفید ثابت ہوتی ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ چیک پوسٹوں کے معاملات کو حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان فوجی اور دیگر سطح پر رابطوں کے ذرائع کو استعمال کرنا چاہیے۔ افغانستان میں پاکستانی سفیر محمد صادق خان نے افغانستان کا دورہ کرنے والے پاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام ہمیشہ پاکستان کے بارے میں منفی خیالات کا شکار رہے ہیں یہ منفی سوچ افغان ایلیٹ کلاس کی جانب سے پیدا کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی افغانستان کے بارے میں سوچ ہمیشہ مثبت رہی اور کبھی افغانستان میں سٹرٹیجک حکمت عملی یا گہرائی میں دلچسپی لی اور نہ ہی افغانستان کی جانب سے ایسی کوئی پیشکش ہوئی ہے۔ محمد صادق نے کہا کہ افغانستان کیلئے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان کو یہ پیشکش کرے جب تک کہ وہ پہلے سے بیرون ملک کے سٹریٹجک قبرستان کے منظر سے باہر نہیں نکل سکتا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اور حالیہ سرحدی کشیدگی کے حوالے سے پاکستانی سفیر نے کہا کہ افغان سکیورٹی فورسز جن چیک پوسٹوں کی ملکیت کا دعویٰ کررہی ہیں وہ پاکستانی فورسز نے 2002ءاور 2003ءمیں تعمیر کی ہیں۔ نیٹو حکام ان پاکستانی چیک پوسٹوں کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ محمد صادق نے ان چیک پوسٹوں کی ملکیت بارے افغانستان کے دعوے کو بے بنیاد اور مضحکہ خےز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک جانب افغانستان کراس بارڈر مداخلت روکنے اور دوسری جانب پاکستانی فوجی چیک پوسٹیں ختم کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ فوجی چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کے بعد سرحدوں پر غیرقانونی نقل و حرکت اور مداخلت کو روکنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ افغانستان کی جانب سے زمینی حقائق جانے بغیر بے بنیاد مطالبات دونوں ممالک کے درمیان تنازعے اور کشیدگی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ دونوں ممالک سرحد پر دونوں ممالک کے مضبوط کنٹرول اور سرحدوں پر لوگوں کیلئے آزادانہ نقل و حرکت ہونی چاہئے۔
افغانستان / چوکی پر حملہ