”پرانا پاکستان“ ۔۔۔!
جوں جوں الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے، دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو رہی ہیں۔ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ مبادا ”نیا پاکستان“ لینے کے جنون میں کہیں ”پرانا پاکستان“ بھی نہ گنوا بیٹھیں۔ مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ نئی شادی کے چکر میں عمومََا پرانی شادی بھی خراب ہو جاتی ہے۔ نئی فرج گھر لائیں تو لوڈشیڈنگ ”نئی فرج“ بھی ساڑھ دیتی ہے۔ بیوی ہو یا فرج بندہ یہی کہتا سنا گیا ہے ” وہ پہلے والی ہی ٹھیک تھی“۔ کہیں بلا لہرایا جا رہاہے اور کہیں شیر سے ڈرایا جا رہاہے۔ نیا پاکستان‘ تبدیلی اور انقلاب پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ کوئی لا الہ اللہ کا پاکستان دےنے کا دعویٰ کر رہاہے اور کوئی دہشت گردی سے پاک پاکستان کا خواب دکھا رہا ہے۔ پاکستان کی اکثریت اسلام پسند ہے مگر حقیقی اسلام کا تعین کرنے سے محروم ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر پارٹی اب پاکستان کو اقبالؒ اور قائدؒ کا پاکستان دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق اسلامی ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت شرعی قانون کا نفاذ چاہتی ہے تاہم شریعت کس قسم کی ہو ،اس پر اختلاف پایا جاتا ہے ۔2008سے2012 کے درمیان کرائے گئے ایک مغربی سروے کے نتائج کے مطابق مشرق وسطیٰ ،شمالی افریقہ ،جنوبی ایشیاءاور دیگر ایشیائی ممالک کی اکثریت اپنے ملک میں اسلامی نفاذ کے حق میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مکمل شریعت نافذ نہ ہو تو بھی طلاق اور وراثت سمیت گھریلو معاملات کے حل کے لئے شرعی عدالتیں قائم ہونی چاہئیں۔ سروے میں ایک دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ اسلام کے اطلاق کے خواہشمند وںمیں اکثر چور کے ہاتھ کاٹنے اور دیگر جرائم میں سر قلم کرنے جیسی سزاﺅں کے بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔سروے میں انتالیس اسلامی ملکوں میںیہ سوال بھی کیا گیا کہ آیا مسلم ممالک میں رہنے والی اقلیتوں کو اپنے مذاہب کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہونی چاہئے؟75 فیصد پاکستانیوں نے اس کے حق میں جواب دیا۔پاکستان کے لوگ بھی ملک میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں مگر طالبان والا اسلام نہیں چاہتے۔ اسلام پہلے ہی کئی مسالک اور فرقوں میں بٹ چکا ہے، اس میں طالبان والے اسلام کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ایران میں شیعہ فقہ رائج ہے اور سعودی عرب میں سعودی مسلک کی حکومت ہے مگر پاکستان میں اتنی اقسام کے اسلام موجود ہیں کہ کسی ایک فقہ اور مسلک کا نفاذ خونی جنگ کو دعوت دینا ہے۔مشرق وسطیٰ میں ”جدی پشتی“ عرب المعروف زمانہ جہالت کے بدوآباد تھے،ان سنگ دل بدوﺅں کی تراش خراش دین اسلام نے کی اور انہیں دنیا میں عزت عطا کی۔برصغیر میں صوفیاءکرام نے اسلام پھیلایا،یہی وجہ ہے کہ بر صغیر کے لوگ نسبتََا نرم دل پائے گئے ہیں۔ہندوستان اور پاکستان کی پہچان صوفیاءکرام سے منسوب ہے۔ برصغیر میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام سے خوفزدہ متعصب ہندوﺅں نے مسلمانوں کی مخالفت شروع کر دی اور یہ سلسلہ سیاسی صورتحال اختیار کر گیا حتیٰ کہ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک الگ ریاست کا مطالبہ کرنا پڑا۔پاکستان کو معرض وجود میں آئے برسوں گزر گئے مگر امریکہ میں پاکستان ایک نا معلوم نام تھا۔ نائن الیون کے واقعہ سے پہلے امریکی عوام پاکستان کا نام تک نہیں جانتے تھے۔ہمیں انڈین سمجھا جاتا تھا۔پاکستان کا محل وقوع سمجھانے کے لئے انڈیا کا حوالہ دینا پڑتا تھا مگر نائن الیون کے واقعہ کے انتقام میں جب پاکستان کو بھی شامل کر لیا گیا تو پاکستان کا نام امریکہ ہی نہیں پوری دنیا میں مشہور ہو گیا۔بلکہ صورتحال بر عکس ہو گئی اور انڈین کو پاکستانی سمجھا جانے لگا ۔ سکھوں اور ہندوﺅں کو اپنی شناخت ثابت کرنے کے لئے کبھی کبھار تو اپنی آئی ڈی پیش کرنا پڑتی ہے۔نائن الیون کے واقعہ سے پہلے ہندو اور سکھ پاکستانیوں کے خلاف صرف مذہبی تعصب رکھتے تھے مگر نائن الیون کے بعداس تعصب میں سیاست بھی شامل ہوگئی لہذا امریکہ میں بھارتی کمیونٹی دہرے تعصب میں مبتلا ہے۔قیام پاکستان کو غلطی قرار دینے والے پاکستانی بھی اپنے بچوں کی شادی پاکستانیوں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔سچائی بکواس سے جھٹلائی نہیںجا سکتی ۔ایران نہ رہے تو بھی اس کے باشندے ایرانی کہلائیں گے،افغانستان ختم ہو جائے تو بھی اس کا شہری افغانی کہلائے گا،دنیا میں کوئی ملک تباہ ہو جائے مگر اس کا شہری اپنے ملک کی شناخت سے پکارا جاتا رہے گا۔ انڈیا چاہتا ہے کہ پاکستان کی پہچان ختم کر دی جائے۔ اس مشن میں ہنودو یہودو نصاریٰ متحدومتفق ہیں۔ پاکستان میں حالیہ الیکشن میں ایک پارٹی کا نعرہ اور دعویٰ ”نیا پاکستان“ ہے مگر ووٹر سے یہ غلطی ہو گئی جس کی کم امید ہے تو ”وہ اب پچھتاوت کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت“ گاتے پھریں گے۔