• news

عمران خان کی سکیورٹی میں شرمناک ناکامی کا ذمہ دار کون؟

تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ منگل وار 7 مئی کی شام لاہور کی غالب مارکیٹ میں ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کے لئے جب ایک لفٹر کے ذریعے تقریباً 20 فٹ کی بلندی پر سٹیج کے قریب پہنچ چکے تھے تو عین اس لمحہ جو سانحہ پیش آیا وہ نا صرف پاکستان بھر کے عوام بلکہ پوری دنیا ٹی وی کی مختلف چینلز پر ملاحظہ کر چکی ہے اس کالم کے تادم تحریر بوقت 8 بجے شام حادثہ کے ایک گھنٹے سے اوپر گزر جانے کے باوجود تحریک انصاف کے کسی ذمہ دار عہدیدار کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا نہ ہی عمران خان کی سکیورٹی کے انچارج صوبائی یا وفاقی نگران حکومت کے کسی عہدیدار یا سکیورٹی ایجنسی یا ادارہ کی طرف سے عمران خان کو پیش آنے والے حادثہ کی کوئی تفصیلات کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ مختلف اخباری و ٹی وی کے ذریعے جاری ہونے والے جو بیانات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق عمران خان کسی نامعلوم وجہ سے غیر متوازن ہو جانے کے باعث 20 فٹ کی بلندی سے اس وقت نیچے گرے جبکہ ٹی وی کیمروں نے ان کو اپنے محافظوں کے ساتھ سٹیج پر قدم رکھنے سے پہلے زمین پر گرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ ان کے دائیں طرف دو محافظ جن میں سے ایک داڑھی والا اور دوسرا مونچھوں کے ساتھ کلین شیو تھا ان سے پہلے غیر متوازن ہو کر جبکہ عمران خان ان کے اوپر گرتے ہوئے نیچے کی طرف لڑھکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے میری رائے غلط ہو لیکن راقم کے تاثر کے مطابق یوں لگتا ہے جیسے کسی نے پیچھے یا سائیڈ سے عمران کو دھکیلایا PUSH کیا ہوبہرحال ماہرین کو صحیح فیصلہ پر پہنچنے کے لئے کوئی مشکل نہ ہونی چاہئے مختلف رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ عمران خان کے سر اور ماتھے پر چوٹیں آنے کے باعث ان کے سر سے اتنا خون بہنا شروع ہوگیا تھا جس سے ان کا لباس خون آلود ہوگیا تھا ان کو تھامے ہوئے بعض باوردی اور سفید کپڑوں میں ملبوس افراد موٹر کار کی طرف لیجاتے دکھائے گئے ہیں اور کیمرے عمران خان کو بے ہوش حالت میں دکھاتے ہیں۔ غالباً موقعہ پر کوئی ایمبولینس یا ڈاکٹر کسی ایمرجنسی سے نپٹنے کے لئے فوری امداد یعنی فرسٹ ایڈ اور سر سے رستے ہوئے خون فوراً بند کرنے یا پٹی لگاتے کسی کیمرے نے نہیں دکھائے شاید فوری طور پر ہسپتال رش کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہو یہ بھی ابتدائی طور پر واضح نہیں ہوا کہ عمران خان کو جنرل ہسپتال یا شوکت خانم ہسپتال پہنچایا گیا۔ ساڑھے آٹھ بجے اس کالم کے تحریری کے دوران ڈاکٹر شفیق صاحب کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ عمران خان کے سر پر 6انچ گہرا زخم آیا ہے جس کے باعث ان کے سر پر کئی Stitches لگائی گئی ہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عمران خان کو شوکت خانم ہسپتال منتقل کیا گیا ہے جہاں ان کا MRI کا Procedure ہوگا۔ ڈاکٹر شفیق کے مطابق عمران خان ہوش میں آگئے ہیں اور ان کی حالت کسی قسم کے خطرے سے باہر ہے لیکن ان کو سر کے اگلے حصے میں پانچ اور پچھلے حصے میں 6 ٹانکے لگانے کے باعث یقیناً عمران کو آرام کی ضرورت ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ شوکت خانم کے ماہر ڈاکٹروں کی رائے میں سر میں گہرے زخم اور خون بہہ جانے کے باعث عمران خان کو باہر سے تازہ خون دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مقام شکر ہے کہ ڈاکٹر شفیق کے مطابق عمران خان ہوش میں آچکے ہیں ان کی مجموعی میڈیکل صورتحال تسلی بخش ہے اور وہ بات چیت بھی کر رہے ہیں حالانکہ ان کو زخموں کے درد کی تکلیف سے ریلیف کے لئے Pain Killer کی ادویات بھی دے دی گئی ہیں تاکہ وہ آرام سے ہو سکیں۔ صدر پاکستان، گورنر پنجاب اور گورنر سندھ نے اس حادثے میں عمران خان کے زخمی ہونے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے ان کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کی ہے اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی فوری طور پر شوکت خانم ہسپتال پہنچ گئے ہیں۔ سیاسی رہنماﺅں میں میاں محمد نوازشریف اور میاں شہبازشریف نے بھی اور اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے بھی ان کے اس حادثہ پر دوچار ہونے پر ان کے جلد صحت یاب ہونے کی دعا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ میرے اپنے ذاتی خیال میں اس نہایت تشویشناک اور پریشان کن واقعہ کو محض حادثہ قرار دیکر بہت سے دیگر رونما ہونے والے غیر کسی تحقیقات اور مثبت نتیجہ پر پہنچے بغیر تاریخ کے صفوں میں ہوادش پر گم کر دینا انصاف کے تقاضوں سے فرار کے مترادف ہے پاکستان کی ماضی کی تاریخ ایسے گم گشتہ ”ہوادش“ پر آج تک ماتم کر رہی ہے آج جبکہ پاکستان کے تقریباً 20کروڑ عوام 11 مئی کو ہونے والے انتخابات ایک تبدیلی کے لئے ناصرف خواہشمند بلکہ ووٹ کے ذریعے غیر معمولی طور پر بے تاب نظر آتے ہیں ایسے پس منظر میں جبکہ بہت سے اندرون ملک اور بیرون ملک قوتیں افراتفری پھیلانے اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لئے پاکستان میں 11 مئی کو ہونے والے انتخابات کو التواءمیں ڈال کر اپنے ناپاک ارادوں کو عملی صورت دینا چاہتے ہیں۔ ایسے خطرات اور خدشات کی پیش بندی کے لئے نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور مختلف سکیورٹی ایجنسیاں سینئر سیاسی قائدین پر پاکستان مخالف عناصر کی طرف سے قتل اور بم دھماکوں کے بارے میں بار بار وارننگ دے چکے ہیں۔ عمران خان، نوازشریف، صدر زرداری، شہبازشریف، اسفند یار ولی کی سکیورٹی کے لئے اعلیٰ ترین سطح پر سکیورٹی انتظامات بنانا نگران حکومت کا اولین فرض منصبی ہے لیکن مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ عمران خان کو غالب مارکیٹ کے جلسے میں لفٹر کے ذریعے 20 فٹ کی بلندی سے نیچے گر جانے سنگین سکیورٹی Lapse کو حادثہ کہنا انصاف کے تقاضوں کو ترازو پر انتہائی غیر جانبداری سے تفتیش کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ حادثہ کسی گھناﺅنی سازش کا نتیجہ نہ ہو۔ نگران حکومتیں اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکامی کے باعث ملزم بھی قرار دی جا سکتی ہے لہٰذا ایک اعلیٰ سطحی جائنٹ انکوائری کمیٹی کی ضرورت ہے جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت پر ایف آئی اے پولیس انٹیلی جنس بیورو ملٹری انٹیلی جنٹس اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (ISI) کے سینئر ترین حکام 11 مئی کی شام تک اپنی ابتدائی رپورٹ مزید ضروری قانونی و آئینی سفارشات چیف جسٹس کو پیش کردیں اگر کسی بھی سیاسی یا شدت پسند مذہبی پارٹی پر شبہ کے خدشات سامنے آئے تو ان کے خلاف ضروری قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے کیونکہ حال ہی میں کراچی میں ایک شدت پسند مذہبی پارٹی کے مقامی امیر کو دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ غیر جانبدارانہ تفتیش میں کسی کو بھی شبہ سے مستثنیٰ نہ قرار دیا جائے جب تک وہ معصوم اور بے گناہ ثابت نہ ہوں۔

ای پیپر-دی نیشن