زخمی عمران کے لئے اندر کی بات
زخمی عمران کے لئے اندر کی بات
عمران خان کے اچانک اور پراسرار انداز میں زخمی ہونے کی خبر پوری دنیا میں حیرانی پریشانی اور بدگمانی کے دائرے میں چکرانے لگی ہے۔ یہ کیا ہوا کیسے ہوا کیوں ہوا؟ سینکڑوں سوالات زخمی پرندوں کی طرح چاروں طرف اڑنے لگے۔ اس کے لئے کئی جوابات دل میں گھوم گئے اور ایک جواب میں سمٹ آئے کہ یہ کوئی سازش تھی ، گھٹیا منصوبہ بندی تھی۔ محترم کرنل اکرام اللہ کا کالم کئی دروازے کھولتا ہے پھر یہ دروازے خود بخود بند ہوتے ہیں۔ گھنٹیاں چیخیں بن کر بج اٹھتی ہیں ۔ یہ بھی نوائے وقت کا کریڈٹ ہے کہ ابھی ایسا کالم کسی اخبار میں شائع نہیں ہوا۔ کرنل اکرام اللہ عمران کے والد اکرام اللہ خان نیازی کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے لاکھوں دلوں میں مچلتے ہوئے دکھ کو اس طرح لکھا ہے کہ لفظ بھی اشک آلود لگتے ہیں۔ ان کے کالموں کا عنوان ”عمران کی سیکورٹی میں شرمناک ناکامی کا ذمہ دار کون“ عمران پیارا اور بے پرواہ آدمی ہے ان کے جلسے میں نہ انتظام تھا نہ اہتمام تھا تو یہ انجام تو ہونا تھا ۔ کسی نے کچھ بھی چیک کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ لفٹر انتہائی ناقص اور کمزور تھا۔ کیا اسے گرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ خود عمران نے کہا کہ مجھے لگتا ہے میں اس لفٹر سے گرنے والا ہوں۔ وہ گرے نہیں گرائے گئے ہیں؟ دو تین آدمیوں کے لئے لفٹر میں چھ سات لوگ چڑھ گئے۔ ان میں کالی شرٹ والا وہ نوجوان بھی تھا جس کا عمران کو دھکا لگا۔ یہ منظر ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ آدمی کہاں ہے؟ پولیس اسے تلاش کرنے کی بجائے تین زخمی گارڈز کو شامل تفتیش کر رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کو بھی اپنے لوگوں اور محافظوں کے درمیان مارا گیا جنہیں صدر زرداری اور رحمان ملک جانتے ہیں مگر پکڑتے نہیں۔ جس طرح عمران گرے اور دو تین لوگ اس کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے یہ منظر کوئی اور کہانی بیان کرتا ہے۔ اتنی اونچائی سے گرنے والا موت کے منہ سے بچ نکلتا ہے۔ اللہ ہمیشہ عمران کی حفاظت کرے گا۔ کئی دنوں سے الیکشن ملتوی کرانے والے یہ افواہیں پھیلا رہے تھے کہ دو میں سے ایک مارا جائے گا۔ شاید دو میں ایک عمران خان تھا جسے اللہ نے بچا لیا۔ نجم سیٹھی شوکت خانم تو گئے مگر ایک بہت بڑے لیڈر قومی سٹار امیدوار روشنی کی علامت محبتوں کے مرکز انسان کے لئے کوئی حفاظتی انتظامات نہ تھے۔ آپ کی نگرانیاں کہاں گئیں سیٹھی صاحب نے عمران کی صحت کے لئے غیر ذمہ دارانہ بیان دے کراچھا نہیں کیا۔ یہ صرف ڈاکٹروں کا کام ہے کیا نجم سیٹھی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اب عمران خدانخواستہ سیاست نہیں کر سکیں گے کوئی تفتیش کوئی انکوائری؟ بے نظیر بھٹو کے لئے بھی کچھ نہیں ہوا تھا۔ کمزور سا لفٹر تھا مگر سٹریچر نہ تھا۔ ابتدائی طبی امداد کا بندوبست نہ تھا۔ کوئی ایمبولینس نہ تھی 1122بھی نہ تھی۔ جس انداز میں اپنے ہاتھوں میں اٹھا کے کارکن عمران خان کو لا رہے تھے جیسے قربانی کے بکرے کو لایا جاتا ہے۔ میں عمران کا نقاد بھی ہوں مگر خدا کی قسم میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ مجھے کسی صلے کی پرواہ نہیں اور عمران خان کسی کی محبت کا کوئی صلہ دینے والا مزاج بھی نہیں رکھتا۔ مجھے عمران کی بے بسی بے چارگی دیکھ کر اپنے آپ سے شرم آئی۔ہم اپنے نامور لوگوں سے یہ سلوک کرتے ہیں۔ وہ سخت تکلیف اور بے بسی کے عالم میں کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے۔ نجم سیٹھی اور ان کی انتظامیہ تو نجانے کیا چاہتی تھی مگر تحریک انصاف کے بڑے کھڑپینچ لوگ کیا کر رہے تھے۔ ٹکٹوں کے لئے مرنے مارنے پر تیار لوگ کیا دیکھ رہے تھے۔ جنہوں نے عمران کی خوشنودی کے لئے کروڑوں لگائے وہ اس کی حفاظت کے لئے ایسا کمزور اور لاغر لفٹر کیوں لائے۔ ضلع لاہور کے صدر عبدالعلیم خان سے پوچھا جائے کہ کیا وہ اس لفٹر پر اپنا پاﺅں بھی رکھے گا۔ جہانگیر ترین کہاں ہے؟ جس کا طیارہ عمران کے زیر استعمال رہتا ہے۔ کھرب پتی اعظم سواتی کے پاس دولت ہے مگر دل کی دولت ان کے پاس نہیں ہوتی۔ تحریک انصاف کے نمایاں لوگوں میں سے ایک نے اظہار افسوس کا بیان تک نہیں دیا۔ سیاسی باغی جاوید ہاشمی کی آواز بند ہو گئی ہے۔ شاہ محمود قریشی، خورشید محمود قصوری کہیں گم ہو گئے ہیں۔ شفقت محمود افسر کم سیاستدان ہے۔ شاہ محمود قریشی پریس کانفرنس میں مزاحیہ مصنوعی انداز میں بات کرتے رہے۔ اس کے ساتھ جاوید ہاشمی مجبوری میں تھا جیسے کسی نے زبردستی بٹھا دیا ہو۔ اس کے برعکس تمام دوسری پارٹیوں کے لوگوں نے اظہار افسوس کیا۔ مریم نواز نے دل سے دعا کی۔ انہوں نے پہلے ایک بار یہ کہہ کر بھی کمال کیا۔ بے نظیر بھٹو میری آئیڈیل ہےں۔ شہباز شریف عیادت کے لئے ہسپتال پہنچ گئے۔ عمران کے حریف امیدوار ایاز صادق کو ہسپتال میں دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ نوازشریف نے اگلے روز کے لئے اپنی انتخابی مہم منسوخ کر دی۔ صدر زرداری اور جسٹس فحرو بھائی نے بھی اظہار افسوس کیا مگر یہ بہت اچھی روایت ہے مگر وہ انکوائری کرائیں اور کھوج لگائیں یہ کوئی سازش تو نہیں۔ حادثے کی آڑ میں کوئی قاتلانہ منصوبہ بندی تو نہ تھی۔ یہ الیکشن سے پہلے کوئی دھاندلی تو نہیں آرمی چیف بھی اس حوالے سے غور کریں۔ چیف جسٹس قومی سٹار کے خلاف اس خطرناک کارروائی پر سو¶موٹو لیں۔ وہ کسی فلم سٹار کی شرمناک حرکت پر تو سو¶موٹو لیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی شیرنی ڈاکٹر یاسمین راشد سے میرا رابطہ ہوتا تو میں پوچھتا کہ اے بہادر خاتون کیا بہادروں کو بزدلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نجی ہسپتال سے شوکت خانم 1122 پر شفٹ کیا گیا کسی سیاسی معاملے میں پڑے بغیر چودھری پرویزالہی کے لئے ممنونیت کے جذبات پیدا ہوئے کہ ان کی طرف سے بنائی ہوئی اس سروس سے کہاں کہاں فائدہ ہو رہا ہے۔ ایسے منصوبے فلاحی اور عوامی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کام آتے ہیں۔ چودھری صاحبان کی طرف سے عمران کے لئے ہمدردی کا پیغام بھی آیا ہے۔ لیکن یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ شوکت خانم تک پہنچنے کے لئے پندرہ منٹ لگتے ہیں مگر عمران کو لے جاتے ہوئے 35 منٹ لگے۔ جگہ جگہ ٹریفک پھنسی ہوئی تھی۔ تین بار ایمبولینس کو راستہ تبدیل کرنا پڑا۔ شکر ہے عمران کو شوکت خانم میں شفٹ کر دیا گیا کسی دوسرے ہسپتال میں ان کے لئے خطرہ ہو سکتا تھا۔ یہ بات بالواسطہ یاد آئی ہے کہ 60 سال کے بعد بھی ہماری سوچ نہیں بدلی۔ ہم غافل لاپروا اور سازشی لوگ ہیں۔ زیارت سے کراچی پہنچنے پر قائداعظمؒ کی ایمبولینس کا پٹرول راستے میں ختم ہو گیا۔ مادر ملت پسینے میں بے حال بابائے قوم کو اپنے آنچل سے ہوا دیتی رہیں اور روتی رہیں۔ اس کی تفتیش کرانے کی کسی کو توفیق ہوئی؟ نجم سیٹھی یہ تو ہدایت دے سکتے تھے عمران کے راستے میں اس موقع پر ٹریفک کو بحال رکھا جائے۔ رحمان ملک نے حسب معمول مگر ٹھیک بات کی کہ یہ حادثہ کسی سوچی سمجھی سکیم اور سازش کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ بھی کالعدم تحریک طالبان کی کارروائی ہے۔ انہوں نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ان لوگوں کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے جو طالبان کے حامی ہیں۔ مجھے بہت فون آئے میرا دل بھر آیا کہ لوگ عمران کے لئے میری بات پر اعتماد کر رہے ہیں۔ میں عمران کے لئے تعریف اور تنقید دونوں کو ضروری سمجھتا ہوں۔ لوگ روتے تھے اور میں بھی ان کے ساتھ رو پڑتا تھا۔ عارف والا سے ایک آدمی نے فون کیا کہ میرے گھر میں ٹی وی نہیں ہے مجھے پتہ چلا ہے کہ کسی نے عمران کو دھکا دیا تھا۔ میں نے اسے ایک واقعہ سنایا کہ ایک خان صاحب نے دریا میں کود کے ڈوبتے ہوئے بچے کو بچا لیا۔ باہر نکلتے ہی لوگوں نے مبارکباد دی اس نے بچے کو پیار سے دیکھا اور کہا پہلے یہ بتاﺅ کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا۔ عمران کو جس نے بھی دھکا دیا ہے اس نے گرتے ہی خود اٹھنے کی کوشش کی۔ اس حادثے کا فائدہ اس کے مقصد کو ہوا ہے۔ وہ ایک بہادر مضبوط ان تھک ارادے کا پکا آدمی ہے۔ وہ آخری گیند تک لڑنے والا کھلاڑی ہے۔ اس نے ترستے ہوئے سسکتے ہوئے ذلت اور اذیت میں ڈوبے ہوئے مجبور اور بے بس بچوں جیسے لوگوں کو بچانے کا عزم کر رکھا ہے۔ وہ زندہ رہے گا زندہ تر رہے گا۔ اللہ ہمارے اچھے سیاستدانوں کی حفاظت کرے۔ شوکت خانم میں بستر علالت پر زخمی اور نڈھال لمحوں میں عمران نے جو پیغام دیا ہے۔ وہ بہت موثر خوبصورت اور درد انگیز ہے۔ اس کے مزاج میں دلآویزی نہیں ہے مگر اس وقت کی باتوں میں دردوگداز کی ساری بے قراری موجود تھی۔ اس نے کہا کہ میں پاکستان کے لئے لڑتا رہا ہوں۔ میں جو کچھ کر سکتا تھا۔ میں نے کیا۔ اور یہ کسی پر احسان نہیں ہے۔ یہ صرف میری جنگ نہیں آپ سب کی جنگ ہے۔جو کچھ پچھلے پانچ برس میں ہوا۔ اگلے پانچ سال میں آپ سے برداشت نہیں ہو گا۔ اور خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جو خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کرتی اپنی تقدیر بدلنے کے لئے گھروں سے نکلو۔