شریف برادران پر الزام تراشی، رحمن ملک کی اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کی کوشش
لندن (تجزیاتی پورٹ: خالد ایچ لودھی) قومی سلامتی کے سابق محافظ رحمن ملک شریف برادران کے خلاف جن حقائق کو منظر عام پر لا کر پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا سہارا لیکر اپنی پانچ سالہ ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں، رحمن ملک کا موجودہ کردار ملک کے قومی اداروں اور سیاستدانوں کیلئے سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی پیراشوٹ کے ذریعے پاکستانی سیاست میں اتارے گئے افراد میں رحمن ملک اور حسین حقانی کا ماضی اور حال کھلی کتاب کی مانند ہے۔ رحمن ملک جو کہ بے وقت کا راگ الاپنے کے ماہر ہیں، موجودہ حالات میں جب کہ قومی انتخابی مہم عروج پر پہنچ چکی ہے اس موقع پر ملک کی سیاسی پارٹیوں میں تفرقہ ڈالنے اور اپنی چند ایک مخصوص سیاسی گروپس کو ملا کر ملک کے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف جن مالی بدعنوانیوں کا وہ تذکرہ کر رہے ہیں یہ وہی پرانا سلسلہ ہے جو کہ بی بی سی کی ڈاکومنٹری میں بھی پیش کیا گیا۔ یہ بھی ایک راز ہے کہ جب لندن میں رحمن ملک نے شریف برادران کے خلاف برطانوی میڈیا میں کردارکشی کی مہم کا آغاز کیا تو اس سلسلے میں ان کو سرمایہ کون فراہم کرتا تھا اور ان کے جرمنی اور امریکہ کے دوروں کے علاوہ دوبئی میں انکی سرگرمیاں کس نوعیت کی ہوتی تھیں؟ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب لندن میں ایجویئر روڈ کے فلیٹ جو کہ رحمن ملک کی ملکیت ہے وہاں محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین ”میثاق جمہوریت“ کا معاہدہ طے ہونا پایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما مخدوم امین فہیم میاں نواز شریف کو رحمن ملک کے فلیٹ پر لیکر آئے تھے۔ پاکستان کی تاریخ کے انتہائی اہم قومی انتخابات میں چند گھنٹوں کا وقت باقی ہے ان لمحات میں یہ امر ضروری ہے کہ اب قوم اپنا مقدس ووٹ دیتے وقت شخصیات اور سیاسی پارٹیوں کے ماضی کو ضرور مدنظر رکھیں۔ رحمان ملک کا حلقہ انتخاب پورے پاکستان میں کسی بھی جگہ نہیں۔ انکی نہ کوئی سیاسی جدوجہد ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر انکی کوئی خدمات کا ریکارڈ موجود ہے، پاکستانی میڈیا انکو کس بنیاد پر کوریج دیتا ہے؟ انکی پراسرار شخصیت کو کیوں پروجیکٹ کیا جاتا ہے؟ چوھری ظہور الٰہی مرحوم کی بدولت ماضی میں انکو چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ہاﺅس تک رسائی حاصل ہوئی اور پھر بیگم ضیاءالحق مرحوم کی سفارش پر وزارت داخلہ کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ میں نوکری دی گئی، بعد میں ایف آئی اے میں ملازمت کے دوران میاں برادران کے خلاف مقدمات بنوا کر پیپلز پارٹی کی خوشنودی حاصل کر کے سابق وزیر داخلہ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر کے قریب ہو کر محترمہ بینظیر بھٹو کی گڈبکس میں شامل ہوئے۔ بعد میں انکے رابطے جن طاقتوں سے رہے اور جو انکا ماضی کا کردار ہے، یہ پورے کا پورا اپنے اندر بے پناہ سوالات لئے ہوئے ہے، کم از کم پاکستان کے موجودہ حساس حالات کے پیش نظر ملکی سلامتی اور سیاسی طور پر بدامنی پھیلانے والے عناصر کا کیا احتساب ممکن ہے؟ ہر کسی کا ماضی اور حال اب کھلی کتاب کی مانند ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں خاص طور پر وزارت داخلہ میں کھلواڑ ہوتا رہا ہے کیا یہ قومی سلامتی کے تقاضوں کے مطابق تھا؟ قوم کے سامنے حساس معاملات میں غیر ملکی قوتوں کے آلہ¿ کار بننے والوں کو ہر قیمت پر بے نقاب کیا جانا چاہئے اور انکی بے وقت راگنی پر کان نہ دھرے جائیں۔