• news

ڈرون حملے جنگی جرم ہیں‘ سیکورٹی فورسز کو انہیں مار گرانے کا اختیار ہے : پشاور ہائیکورٹ

ڈرون حملے جنگی جرم ہیں‘ سیکورٹی فورسز کو انہیں مار گرانے کا اختیار ہے : پشاور ہائیکورٹ

پشاور(بیورورپورٹ،ثناءنےوز)پشاور ہائی کورٹ نے صوبہ خیبر پی کے سے متصل قبائلی علاقہ جات پر امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں کےخلاف دائر مختلف نوعیت کے پانچ رٹ دائر درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 29 صفحات پر مشتمل محفوظ شدہ تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس کے مطابق عدالت عالیہ پشاور نے ڈرون حملوں کو غیر آئینی، غیر قانونی اور جنگی جرم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور سکیورٹی فورسز کو آئین وقانون کے مطابق ڈرون طیارے گرانے کا مکمل آئینی وقانونی اختیار ہے عدالت عالیہ پشاور کے فیصلے مےں حکم دیا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت ڈرون حملوں کی روک تھام کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک ریفرنس کے ذریعے مطالبات پیش کرے تاہم اگر اس کے باوجود بھی امریکی حکومت پاکستان کی سالمیت اور اس کی خودمختاری پر ڈرون حملے کرتی ہے تو امریکہ کے ساتھ ہر قسم کے سفارتی تعلقات ختم اور پاکستان میں امریکیوں کو حاصل تمام تر سہولیات واپس لی جائےں عدالت عالیہ پشاور کے چیف جسٹس دوست محمد خان اور خاتون جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ایف ایم صابر، ڈیفنس پاکستان کونسل اور مقامی فاﺅنڈیشن سمیت ایک ہی نوعیت کے پانچ دائر رٹ پٹیشن پر فیصلہ سنا دیا عدالتی حکمنامہ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان پہلے امریکہ کو مزید ڈرون حملے نہ کرنے کیلئے وارننگ دے اگر وارننگ کے باوجود بھی وہ بدستور اپنے حملے جاری رکھے توپاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر آئین وقانون کے مطابق حکومت وقت اور سکیورٹی اداروں کو ڈرون گرانے کا مکمل طور پر اختیار حاصل ہے عدالتی حکمنامہ میں بتایا گیا ہے کہ ڈرون حملہ جنگی ماحول کی پیداوار ہے اور یہ ایک جنگی جرم ہے رٹ پٹیشن میں بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ ڈرون حملوں کی روک تھام کیلئے اپنے تحت ایک ٹریبونل کا قیام عمل میں لائے وہ بھی ڈرون حملوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ڈرون حملوں میں جاں بحق ہوئے ہیں انھیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق معاوضہ کی ادائیگی کر کے اور ان کے تمام نقصانات کا ازالہ کےا جائے جس کےلئے پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر اس کے مطالبات کرے واضح رہے کہ دائر رٹ پٹیشن میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر 2004سے مسلسل ڈرون حملے ہوتے رہے ہےں جس کی وجہ سے بچے خواتین اور مردوں سمیت سینکڑوں افراد ان حملوں میں نشانہ بنتے ہےں جن میں اکثریت بے گناہ افراد کی ہوتی ہے عدالت عالیہ پشاور نے اپنے حکمنامہ میں واضح کیا کہ ڈرون حملے غیر قانونی ہیں اور اگر وارننگ اور اقوام متحدہ کی اس کے خلاف آواز اٹھانے کے باوجود بھی حملے ہوتے رہے تو امریکہ کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات ختم کئے جائےں اور پاکستان میں امریکیوں کو دی جانے والی سہولیات واپس لی جائیں۔ پشاور سے ثناءنیوز کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے امریکی ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ان حملوں کی روک تھام کو یقینی بنائے۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد تیار کرے اور اسے یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں پیش کیا جائے اگر یہ قرارداد ویٹو ہو تو امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ اور نےٹو سپلائی بند کر دی جائے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ڈرون حملے غیر انسانی جنیوا کنونشن اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہیں ۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ امریکہ ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے افراد کو ڈالرز میں معاوضہ ادا کرے ۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد شہید ہوتے ہین جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں‘ ڈرون حملوں کی تفصیلی رپورٹ جنگی جرائم ٹربےونل میں جمع کروائی جائے ۔ ڈرون حملوں کو جنگی جرم قرار دیا جائے ۔پاکستانی حکومت اور فورسز اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ ڈرون حملے نہ ہوں اور اگر حملے نہ رکیں تو امریکہ کو وارننگ دی جائے جس کے بعد ڈرون مار گرائے جائیں۔ ڈرون حملوں میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ ڈرون حملے نہ ہوں‘ ڈرون حملوں میں بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
پشاور ہائیکورٹ/ ڈرون طیارے

ای پیپر-دی نیشن