اے مری قوم ترے حسن کمالات کی خیر
یوں تو تقریباً سب کالم نگار ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ہر کالم انکے ضمیر کی آواز ہوتا ہے۔ ایسے کالم نگار بھی ہیں جو غیر جانبداری کا بورڈ لگا کر صرف کسی مخصوص جماعت کی حمایت میں لکھتے ہیں لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ وہ ”غالب“ کے طرفدار ہیں۔ ان کالم نگاروں کی تعداد بھی کافی ہے جو کھل کر اپنے جانبدار ہونے کا اعلان کرتے ہیں مگر وہ بھی اس حقیقت کو نہیں مانتے کہ انکی جانبداری کسی مفاد یا لالچ کی مرہون منت ہے۔ جانبداری اگر کسی اصول‘ ضابطے اور بالخصوص لکھنے والے کے ضمیر کے تابع ہو تو وہ اس غیر جانبداری سے ہزار درجے بہتر ہے جس میں بہروپ تو غیر جانبداری کا ہو لیکن لکھنے والا لکھنے سے پہلے رہنمائی اور اجازت کہیں اور سے لیتا ہو۔بے ضمیری اور منافقت نے چاہے کتنا ہی زور پکڑ لیا ہو لیکن اس برے زمانے میں بھی اچھا اور اپنے ضمیر کی آواز پر لکھنے والوں کی کمی نہیں۔ فاروق عالم انصاری بھی ہمارے ایک ایسے ساتھی ہیں جو سلیم کوثر کی زبان میں یہ دعویٰ کر سکتے ہیں۔
ہمیں ہی جرات اظہار کا سلیقہ ہے
صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے
فاروق انصاری عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ایک سرگرم کارکن ہیں اور نوائے وقت میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ نوائے وقت میں لکھنے والے اپنی اخبار کے ادارتی صفحہ میں سب سے اوپر شائع ہونے والی یہ حدیث رسول ہر روز پڑھتے ہیں ”بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق میں کہنا ہے۔“ پاکستان کے جابر سلطانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے سے کہیں زیادہ مشکل یہ بات ہے کہ کوئی شخص ایک سیاسی جماعت میں رہتے ہوئے اپنی جماعت کے ”جمہوری“ سربراہ کے خلاف کلمہ حق بلند کرے۔ فاروق عالم انصاری تحریک انصاف میں رہ کر بھی اپنے قائد عمران خان کی پالیسیوں کیخلاف ایک عرصہ سے حرف حق بلند کرنے کا فریضہ ادا کرتا رہا ہے اور پھر اسکے باوجود بھی وہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہا کہ تحریک انصاف اسے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے اپنا ٹکٹ ضرور دیگی۔ وہ عمران خان سے اپنی حق گوئی اور بیباکی کا انعام چاہتا تھا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ جب ”سونامی“ نیلام گھر میں رکھ دی جائے تو پھر ٹکٹ اسے ملتا ہے۔ جو بولی لگانے میں سب سے اوپر ہو۔ فاروق عالم انصاری نے نوائے وقت میں اپنے 6 مئی 2013ءکے کالم میں ضلع گوجرانوالہ میں تحریک انصاف کی ٹکٹیں بکنے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گوجرانوالہ بھر میں تحریک انصاف کا ایک بھی امیدوار ایسا نہیں جس نے بھاری رقم دے کر انتخابی ٹکٹ نہ خریدی ہو۔ تحریک انصاف کے ایک مخلص کارکن فاروق عالم انصاری کا یہ کالم اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔ کیا یہ تھی وہ تبدیلی جس کا عزم لے کر عمران خان کرکٹ کے میدان سے ریٹائر ہو کر سیاست کے میدان میں آئے تھے۔ کیا یہ ہے وہ نیا پاکستان جس کی بنیاد عمران خاں رکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان بڑے زور شور سے یہ اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ مر جائیں گے لیکن امریکہ یا کسی اور ملک سے بھیک نہیں مانگیں گے۔ ہر غیرت مند پاکستانی لیڈر کو ایسی ہی سوچ رکھنی چاہئے۔ لیکن عمران خان اپنی تمام تر ”ایمانداری“ کے باوجود اگر اپنی جماعت میں ٹکٹوں کی فروخت کےلئے قائم کئے گئےنیلام گھر کے سامنے بے بس ہو گئے تو وہ اپنے اس عہد کو کیسے پورا کریں گے کہ وہ امریکہ یا کسی ملک سے بھیک نہیں مانگیں گے۔ جو سیاسی جماعت اپنے اندر انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کےلئے ایک شفاف نظام کی بنیاد نہیں رکھ سکتی وہ جماعت اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں ایک نئی صبح کی بنیاد رکھنے کا دعویٰ کیسے پورا کر سکتی ہے۔ عمران خان نے کل ہی گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت نے 500 مگر مچھوں کی فہرست تیار کر لی ہے۔ ان سب کا احتساب کیا جائیگا اور ملک سے کسی کو فرار نہیں ہونے دیا جائیگا۔ کرپشن کے بڑے بڑے مگر مچھوں کا احتساب عمران خان کیسے کرینگے جب ان کی جماعت کے اندر اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ایسے مگر مچھوں نے اتنی مضبوط جگہ بنا لی ہے کہ وہ عمران خان کی موجودگی میں کسی احتساب کے خوف کے بغیر برسرعام کروڑوں روپے میں جماعت کے ٹکٹ فروخت کر رہے ہیں اور ٹکٹ خریدنے والے امیدوار بھی اپنے اس عمل پر قطعاً شرمندہ نہیں بلکہ وہ دوسروں کو فخر سے بتا رہے ہیں کہ ہم نے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت سے ٹکٹ خریدے ہیں۔ کچھ محروم رہ جانے والے اس حسرت کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ اگر انہیں بھی علم ہو جاتا تو وہ بھی ایک عدد ٹکٹ ایک کروڑ روپے میں خرید لیتے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر سونامی کو الیکشن سے پہلے ہی ٹکٹیں خریدنے والے امیدواروں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا ہے تو کیا یہ ایک قومی سانحہ نہیں کہ 11 مئی کو تبدیلی کے حق میں ووٹ دینے والوں کے ہاتھ ایک بار پھر خالی رہ جائینگے۔ سانحہ یہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف نے انتخابی ٹکٹ بیچ ڈالے۔ اصل سانحہ یہ ہے کہ تحریک انصاف نے تبدیلی کے خواب بیچ دئیے ہیں۔ دریا¶ں کا رخ یا راستہ بدل جائے۔ تو آباد زمینیں بھی پانی کی عدم دستیابی سے بنجر ہو جاتی ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنی سونامی کو ٹکٹوں کی نیلامی میں بدل کر قوم کا جو نقصان کیا ہے وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔ لیکن سونامی کی یہ نیلامی خود تحریک انصاف کیلئے بھی باعث نیک نامی نہیں۔ فاروق عالم انصاری نے تحریک انصاف کی اندرونی کہانی کے بارے میں سچ لکھ کر اپنے ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کر لیا ہے لیکن ان کے سچ اگل دینے سے کہیں تحریک انصاف اس سچ کے بوجھ سے دب نہ جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انصاری صاحب کا سچ تحریک انصاف کو اور ”بلندیوں“ پر پہنچا دے۔ جوقوم امجد دستی کو جعلی ڈگری کے الزام کے بعد ضمنی انتخابات میں اور زیادہ اکثریت سے قومی اسمبلی کےلئے دوبارہ منتخب کر سکتی ہے ممکن ہے وہ ٹکٹیں خرید کر الیکشن کے میدان میں اترنے والوں کو والہانہ انداز میں اپنی محبتوں سے بھی نواز دے۔
اے مری قوم ترے حسن کمالات کی خیر
تو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشہ دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے
(پس نوشت: تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان لاہور کے ایک جلسہ میں سٹیج پر چڑھتے ہوئے گر کر زخمی ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ان کی جلد صحت یابی کے لئے دعا ہے۔ ان کی سماجی بالخصوص صحت کے شعبہ میں خدمات ناقابل فراموش ہیں اس لئے لاکھوں لوگ ان کیلئے سراپا دعا ہیں۔