گیارہ مئی کا دن ہزار دنوں کا دن
الیکشن کے لئے یہ بات بہت خطرناک ہے کہ الیکشن کمشن نے یہ اعلان کر دیا ہے۔ یہ کھلا اعتراف بھی ہے کہ وہ کراچی میں شفاف اور آزادانہ الیکشن کرانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ تو پھر الیکشن کی کریڈیبلٹی کیا رہ جاتی ہے۔ الیکشن میں میڈیا کی خدمات اور اہمیت سے کوئی انکار نہیں۔ مگر ایک افراتفری پھیلانے سے گریز کرنا چاہئے۔ کسی حلقے کے نتائج کے لئے ایک پولنگ سٹیشن کے غیر سرکاری نتائج کا اعلان مناسب نہیں۔ اگر دوسرے سٹیشن کے نتائج کچھ اور ہوں اور تمام حلقے کے نتائج نجانے کیا ہوں۔ تو اس طرح ایک بے قراری کو ہوا دینا کیوں ضروری ہے۔ سب سے پہلے خبر دینا کریڈٹ نہیں۔ مکمل خبر دینا ایک کارنامہ ہے۔ میری طبیعت دو دن سے خراب تھی۔ پھر بھی ووٹ ڈالنے کے لئے گیا۔ بیٹا سلمان خان میرے ساتھ تھا۔ اتنا بارونق دن میں نے کم کم دیکھا ہے۔ عورتوں اور نوجوانوں حتٰی کہ بچوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ نتائج کیا آتے ہیں۔ ایک خوشی سی بھی ہے مگر یہ ڈری ہوئی خوشی ہے۔ اس پر بات میں اگلے کالم میں کروں گا۔ صرف ایک جملہ کہ الیکشن کے ہونے کی بات صرف پنجاب میں ہے۔ یہ سوال ہر شخص کی زبان پر ہے۔ اللہ پاکستان کو ہر مصیبت سے محفوظ رکھے۔ میں ابھی یہ کیفیت اپنے کانپتے ہوئے دل میں سنبھال کے رکھتا ہوں۔ مگر مجھ سے کچھ سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔ جو لوگ الیکشن میں ہیں۔ جتنے امیدوار ہیں تو اُن میں سے ہی جیت کر آئیں گے۔ وہ جو کچھ کریں گے۔ سامنے آ جائے گا۔ ابھی تو یہ ہے کہ الیکشن کی کریڈیبلٹی کیا بنتی ہے۔ کراچی میں 70 فیصد پولنگ سٹیشنز پر کئی گھنٹے تک پولنگ ہی شروع نہ ہوا۔ ایم کیو ایم سب معاملات میں شریک بھی ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اس پر احتجاج بھی کرتی ہے۔ پچھلے پانچ سال مکمل کرنے والی حکومت عرف جمہوریت جسے پروان چڑھانے میں نوازشریف کا بڑا اہم رول ہے۔ ہر جماعت حکومت میں بھی تھی اور اپوزیشن میں بھی تھی پوزیشن بھی اپوزیشن بھی۔ اس میں فرق تو صرف الف کا ہے۔ تینوں اکو الف درکار۔ مگر یہاں تو مسلم لیگ کے حصے بخرے بھی ہوئے تو کسی کے حصے میں الف نہیں آیا۔ الف کے معانی کوئی بھی جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ خواہش بھی نہیں کرتا۔ انہیں تو سلطان باہو کے اس مصرعے کے بھی پورے مفہوم کا اندازہ نہیں ہے۔ الف اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ھُواکثر اوقات اپوزیشن میں سیاستدان ہر طرح کی پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چودھری نثار قومی اسمبلی کے لئے شیر کے نشان پر اور پنجاب اسمبلی کے لئے گائے کے نشان پر الیکشن لڑ رہا ہے۔ جب تک یہ کالم شائع ہو گا یہ معلوم ہو جائے گا کہ اس فرینڈلی اپوزیشن کا کیا فائدہ ہوا۔ یہاں بھی صرف ایک جملہ لکھ دیتا ہوں۔ باقی کی بات اگلے کالم میں۔ چودھری نثار پنجاب کا وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں؟ اور یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ وہ چاروں نشستوں سے جیتیں گے۔ میں بات یہ کر رہا تھا کہ اب بھی وہی لوگ اسمبلیوں میں آئیں گے۔ ان جیسے لوگ اسمبلیوں میں آئیں گے۔ کچھ نئے لوگ بھی آئے تو وہ بھی چند دنوں کے اندر وہی لوگ بن جائیں گے۔ ہر کہ در کان نمک رفت نمک شدجو بھی نمک کی کان میں گیا نمک ہو گیا۔ ڈاکٹر شیرافگن لوئر مڈل کلاس کا آدمی تھا۔ ہم نے اس کی حمایت کی۔ وہ ایم این اے بنا۔ پھر وزیر شذیر بھی بنا۔ وہ کروڑ پتی ہو گیا۔ اس کا بیٹا امجد خان نائب ناظم میانوالی بھی ہوا۔ اس کے کام بھی کروائے۔ کہتے ہیں وہ اپنے باپ جیسا نہیں ہے۔ اسے عمران نے ٹکٹ بھی دے دیا۔ دیکھتے ہیں وہ اپنے باپ کے راستے پر آتے ہوئے کتنا وقت لگاتا ہے۔ وہ مضبوط رہا تو اس کے والد کے دوست اسے ثابت قدم نہیں رہنے دیں گے۔ یہ موروثی سیاست نہیں ہے؟ ڈاکٹر شیرافگن کا بیٹا پھر امجد خان کا بیٹا۔ تو پھر حمیر حیات روکھڑی، گل حمید روکھڑی کا بیٹا ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ اس نے بھی ناظم میانوالی ہوتے ہوئے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے بعد ہم موروثی سیاست پر تنقید کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں؟مجھے یہ جملہ بھول نہ جائے۔ جو میں اسمبلیوں میں جانے والے لوگوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اسمبلیوں میں اب کے بھی قانون ساز نہیں ہونگے۔ صرف ساز ہوں گے اور وہ اپنے ”ساز و سامان“ کی فکر میں ہوں گے۔ سیالکوٹ کے دو حلقوں سے پیپلز پارٹی کی طرف سے فردوس عاشق اعوان الیکشن لڑ رہی تھیں۔ انہوں نے ایک حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے حق میں دستبرداری کا اعلان کر دیا ۔ یہ میری اس بات کی تائید ہے کہ ہر سیاستدان کو صرف ایک حلقے سے الیکشن لڑنا چاہئے۔ ورنہ وہ جتنے بھی حلقوں سے الیکشن لڑے۔ ان سب میں اُسے جیتنا چاہئے۔ یہ زیادتی ہے۔ وہ جیتی ہوئی سیٹ چھوڑتا ہے تو پھر اس الیکشن پر لاکھوں روپے الیکشن کمشن کو خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ہم فردوس عاشق اعوان کو مبارکباد دیتے ہیں۔