کارگہ حیات میں ذرا تھم کے چل
کارگہ حیات میں ذرا تھم کے چل
آج وقت صبح ایک آیت قرآن کا مفہوم بار بار باب ذہن پر مسلسل دستک دے رہا اور میرے فکر کو دبوچے ہوئے مجھے جذباتی کر رہا ہے۔ اور میرا اضطراب بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آیت کا مفہوم ہے کہ اے اہل ایمان یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناﺅ۔ انسانی زندگی کا جغرافیہ تو محبت و نفرت کے متضاد الاصل کیفیات سے دور ہے کوئی گروہ، کوئی قوم اور کوئی وجود، محبت و نفرت سے فرار اختیار نہیں کر سکتا ۔ انسان کی تاریخ کا ہر صفحہ گواہ ہے کہ جنگ ہو یا امن، اس کا وجود محبت و نفرت ہی کی بنیاد پر ہوا کر تا ہے۔ اسلئے اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کو محبت اور نفرت کے پیمانوں سے آگاہ کر دیا ہے اور دنیا کے بدترین نفرت برداروں اور دشمنان حق کی پوری طرح سے وضاحت کر دی ہے۔ نفرت کا جن بہت برا اور بڑا ہو تا ہے۔ نفرت کے الفاظ میں بھی آہنگ اور صوت کی ناخوشگواری ہے۔ تاریخ کا دور نفرت کے جن کو ہمیشہ ہی یاد رکھتا ہے۔ برصغیرکی ایک داستان نفرت نے پوری تاریخ کو ہلا کر رکھ دیا تھا کہ جب مسلمانوں کے اقتدار کے گھوڑے کی لگام ڈھیلی پڑ ی تو مشرکین ہند کی دبی ہوئی اور چھپی ہوئی نفرت نے اپنے ہونے کا زور دار اعلان کیا۔ ان کے نزدیک مسلمان کا وجود حیوانوں سے بھی بدتر تھا۔ گائے کے بول کو آب شفا سمجھ کر رگ وجاں کو سکون دینا تو بڑا ہی مقدس کام ہے اور مسلمانوں کے برتن کو ہاتھ لگانا بدترین نحوست ہے۔ شقاوت ہے اور بے دینی ہے۔ نفرت کے اس عملی دور نے نفرتوں کے سلسلے کو دراز کیا اور بالآخر قوموں میں حد بند ی کے تقاضے پیدا کر دیئے۔ قومیت اور وطنیت کے تصورات کی وضاحت کا ایک سلسلہ بحث شروع ہوا جسے لوگ سلسلہ علمی کہتے ہیں حالانکہ وہ تو چراغ مصطفویﷺ اور شرار بو لہبی والا قصہ تھا۔ اقبال نے ساری کہانی کو سمیٹے ہوئے کہا تھا....
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیر ا دیس ہے تو مصطفوی ہے
خدا کا بے انتہا کرم ہوا اور اس کے شکرانے کی حد بھی لا انتہا ہی ہے۔ پاکستان کو جغرافیہ نصیب بھی ہوا۔ دلوں کی دنیا میں تو مصطفوی جھنڈے کی آن بان ہر مسلمان کے حصے میں آتی ہے۔ دین کی عزت اور انسانیت سے محبت تومسلمانوں کا دستور با نور ہے اور نفرت کرنے والوں سے بے زاری کا رویہ رکھنا بھی تو دفاع محبت کا اظہار ہے۔ بھارت اور پاکستان کے علیحدہ علیحدہ وجود محض جغرافیائی حد بندیاں رکھتیں ہیں۔ دلوں کے خوشگوار اور ناخوشگوار رویوں کا وہ فطری اظہار ہے جو محبت اور نفرت پر مبنی ہے۔ ہمارے ہر نئے دور میں وطن دوستی کے جذبات وقتی تقاضوں کی زد میں آجاتے ہیں اور دوستی کے معیار بھی لچکدار ہونے لگتے ہیں۔ بسااوقات وطن کی دوستی کو اغیار کی خوشامد کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے اور بے چارے سادہ عوام اپنی حب الوطنی کی مستی میں گاتے رہتے ہیں۔
دوستی ہے دوستی ہے میری کس سے دوستی ہے
ہے وطن سے دوستی کہ بس وطن سے دوستی
ہماری دوستی اور دشمنی کا معیار تو خدا تعالیٰ ورسول کریم کی محبت کے پیمانوں پر ناپا جاتا ہے۔ اسلئے پاکستان سے محبت کا معیار بھی یہی ہے لیکن یہ پاکستان میں کونسا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ لوگ ہمیں کوستے ہیں۔ ہمارے وجود وطن کو بے اصل بتاتے ہیں ۔ قیام پاکستان کو حادثہ قرار دیتے ہیں۔ لاہور سے نفرت دہلی سے محبت کا فلسفہ بگھارتے ہیں ۔ سرحدوں کو گرانے کی بات کرتے ہیں۔ اور پھر تان ٹوٹتی ہے تو مل کر شور مچاتے ہیں ....
تیری پسند ہے بر ی پسند
دشمن پسند ہے، بھارت پسند
اور بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیتے ہیں ہر سیاسی وڈیرہ بڑھ چڑھ کر کار شرمیں شریک ہوتا ہے۔ آج ہر نا خدائے سیاست انتخابی پہلوان پاکستان کو بدلنے کا نعرہ لگا رہا ہے۔ لیکن عوام کو ذرا ہوشیار رہنا چاہیے کہ یہ تبدیلی کہیں منفی تبدیلی نہ ہو ۔ کیونکہ کئی خائن طبع اور نسل پرست ہاکربڑے ہی بدقماش ثابت ہوتے ہیں۔ وہ ہر جملے پر زبان کو گھماکر بولتے ہیں اور پھر اپنی مرضی کے معانی بیان کرتے ہیں بڑی گھاگ مہارت رکھتے ہیں اور کبھی اتنی بڑی مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اشارہ چشم کی قوت سے چور کو تقویت بخشتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے بھارت کا ایک انسان مار اسلام دشمن جاسوس سربجیت سنگھ کو جیل میں ایک حملے میں آنجہانی کر دیا گیا۔ یہ اسلام دشمن سر بجیت سنگھ بہت سے لوگوں کا قاتل تھا اور پاکستانی مفادات کا بہت ہی سنگین دشمن تھا۔ اس کی فہرست جرم ثابت شدہ تھی۔ اور وہ بار بار پھانسی پر لٹکائے جانے کا مستحق تھا اور اس کے جرائم جو بھارت کے مفادات کے کارناموں کی فہرست ہے، اس حقیقت کا اعتراف ایک ذمہ دار بھارتی افسر نے بھی کیا ہے۔ ایک حادثہ تھا۔ جس کا شکاریہ مجرم انسانیت بھی ہوا۔ یہ نہ معصوم تھا، نہ بے گنا ہ تھا اور نہ ہی قابل معافی تھا۔ البتہ ہماری حکومتوں کی خوفزدہ قباحتوں کا متمنی ضرور تھا۔ کیونکہ گذشتہ معاملات میں بھی ہمارے محکوم حکمرانوں نے خوف کے عالم میں اسی طرح کے کئی دشمن وطن سنگھوں کو باعزت رہا کر دیا تھا۔ عوام کا رد عمل تو بہت ہی ناخوشگوار تھا لیکن ہمارے کئی اخباری دانشوروں نے اپنی قلمکاری سے اصل حقیقت کو بدلتے ہوئے نیک خواہشات کی توقع باندھی تھی کہ بھارت بھی ہمارے قیدیوں سے جو اباً ایسا ہی سلوک کرے گا لیکن بھارت کا دستور ہی سفا کیت ہے۔ اس لئے اس نے ایک کشمیری مسلمان حریت پسند کو ڈھٹائی سے تختہ دار پر چڑھا دیا۔ بے چارے انصار برنی منہ دیکھتے رہ گئے اب سر بجیت سنگھ واصل جہنم ہوا تو کئی خماربازوں کو ہوش آیا اور ان کا نشہ ٹوٹا تو وہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں پر نیم وا آنکھوں کے ساتھ لڑکھڑا تی زبان دراز کرنے لگے کہ سر بجیت کو انہوں نے مروا یا ہے۔ ٹکوں کے پجاری نااہل اہل قلم اپنے وطن کے نقشے پر اپنے قلم کی سیاہی پھینکتے رہتے ہیں کیونکہ ان کا قلم چلتا نہیں لکھتے ہوئے ہزار بار ہلتا ہے پھر اس کی درستگی وطن پر سیاہی پھینکنے ہی سے ممکن ہوتی ہے۔ ہندو ستان کی کم ظرفی ان عقل پرستوں کو کبھی نظر نہیں آئی کیونکہ ان کا کام تو مخبروں کے خفیہ ارادوں سے آنکھیں بند کر کے مٹھی گرم کروانا ہے۔ بھارت نے سربجیت سنگھ کا اپنی سوچ کے مطابق اور اپنی کم ظرفی کے تحت یوں لیا کہ ایک بے گنا ہ معصوم اور غریب مسلمان پاکستانی قیدی ثنااللہ کو شہید کر دیا۔ حالانکہ وہ تو بھارتی قانون کے مطابق بھی بے گنا ہ تھا بے چارہ گیت سنگیت کا آدمی تھا۔ مگر بھارت تو ہر امن پسند پاکستانی کو بھی ملیچھ اور بھرشٹ سمجھتا ہے۔ وہ تو ہر مسلمان بچے کو سنپو لیا کہتا ہے۔ اسلئے مسلمانوں کی پوری کی پوری بستیاں اجاڑ دیتا ہے اور کشمیر میں مسلمان عفت مآب مسلمان بیٹیوں کو ہولناکی کے الاﺅ کی بھینٹ چڑھا تا ہے۔ مسافروں کی ریل گاڑی پر ایسے حملہ کرتا ہے کہ جرمنی کے نازی بھی شرماجائیں۔ ان کی روزانہ کی وحشیانہ وارداتیں پاکستان اور پاکستانی عوام کو مصائب سے دوچار کرتی ہیں لیکن کچھ غیرت ناآشنا افراد امن کی آشا کا راگ الا پتے رہتے ہیں اوراکھنڈ بھارت کا جواز پیش کرتے ہیں ذرا بھی شرماتے نہیں۔ بظاہر تو وہ اپنی بقراطیت بگھارتے ہیں لیکن فی الحقیقت وہ اسلام اور پاکستان دشمنی کا انجانا فریضہ ادا کر تے رہے ہوئے ہوتے ہیں۔ محب وطن پاکستانی دانشوروں کی اجتماعی طور پر بھارتی لابی جو کہ پاکستان میں پاکستانی مسلمان کے روپ میں بھارتی نظریاتی تحفظ کا علم اٹھاتے ہوئے ہے، کے مقابلے میں پاکستان کے نظریے کے تحفظ کیلئے عملی کردار ادا کرنا چاہئے۔