پُر تشدد انتخابی مہم
پُر تشدد انتخابی مہم
پاکستان اس وقت اپنی جمہوری تاریخ کے اہم دور سے گزر رہا ہے۔ ملک میں گیارہ مئی کو عام انتخابات ہوئے ہیں عوام نے اپنے آئندہ کے حکمرانوں کا انتخاب کیا۔ یہ ایک منتخب جمہوری حکومت سے دوسری منتخب جمہوری حکومت کو پُر امن انتقالِ اقتدار کا اہم ترین مرحلہ ہے۔ ہماری جمہوری تاریخ کسی صورت بھی درخشندہ نہیں، ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کا تجسس بھی قابلِ فہم ہے۔ سازشی عناصر طرح طرح کی چہ میگوئیاں کر رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں ریاست کے اہم اداروں کی طرف سے جمہوریت پر غیر متزلزل یقین اور جمہوری عمل کی بھرپور حمایت ایک انتہائی حوصلہ افزاءعمل ہے۔
توقعہ کے عین مطابق انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ بلوچستان کراچی اور خیبر پختونخواہ میں انتخابی سر گرمیوں کو نشانہ بنایاگیا ہے جس کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیا بھی ہوا ہے ۔ اس سے ایک طرف تو عوام میں خوف و ہراس کی کیفیت پائی جاتی ہے تو دوسری طرف امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ ا۔ ریاست کے خلاف بر سرِ پیکار طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے مختلف سیاسی جماعتوں کو دھمکیاں بھی دی گئی ہیں جن میں ANP, MQM اورPPP نمایاں ہیں۔ نشدد کے حالیہ جماعتوں کے خلاف سے اس ساری صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکسو اور یکجا ہو کر حالات کا سامنا کرنا چاہیے تا کہ ملک دشمن عناصر کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ وہ تمام گروہ جو اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہ پاکستان کے آئین اور قانون کے باغی ہیں۔ لہذا اُن سے کسی مثبت طرز عمل کی اُمید رکھنا ایک خام خیالی ہے مگر اس ساری صورتحال کے برعکس مذکورہ بالا تین سیاسی جماعتوں کی طرف سے مظلومیت کی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی تا کہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں۔ اگر دیکھا جائے تو تین جماعتیں گزشتہ پانچ سال ان تینوں صوبوں میں حکومت میں رہی ہیں اور اس دوران انہوں نے دہشت گردی کے سدِ باب کے لیے کوئی قابلِ ذکر اقدامات نہیں کیے اور جو اقدامات کئے بھی تو وہ مثبت نتائج کے حاصل نہ ہوسکے۔ کراچی حالیہ چند سالوں میں تاریخ کی بد ترین دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ بلوچستان میں جاری شورش میں بھی بتدریج اضافہ ہوا ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں تو ایک جنگ کی سی کیفیت رہی ہے۔ اپنی بدترین حکومتی کار کردگی کی وجہ سے عوامی غصے اور ناراضگی کو کم کرنے کے لیے عوام کے سامنے مظلومیت کا رونا رو کر ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کی جا سکتی۔
دہشت گردی یقینا ہمارا آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اسے دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم اور پنجاب بامقابلہ تین دوسرے صوبوں کے فرق میں الجھا کر صوبائی اور سیاسی انتشار اور تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے جو کہ یقینا ہمارے ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
دہشت گردی کی یہ کاروائیاں صرف ایک سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتوں یا کسی علاقے تک محدود نہیں۔ اس کے زد میں بتدریج دوسری سیاسی جماعتیں اور گروہ بھی آرہے ہیں۔ صرف بُدھ کے روز بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں مسلم لیگ (ن) نیشنل پیپلز پارٹی،جمعیت علمائے اسلام اور چند آزاد امیدواروں پر بھی پُر تشدد حملے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سارے افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوںکواپنی جان سے ہاتھ بھی دھونا پڑاہے۔یہ صورتحال اس چیز کی غمازی کرتی ہے کہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ کوئی ایک سیاسی جماعت گروہ نہیں بلکہ پورا سیاسی عمل ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ملک میں پُر امن انتخابات کے ذریعے نئی سیاسی حکومت معرضِ وجود میں آئے۔ اُس چیز کا تحریکِ طالبان پاکستان کی طرف سے کئی موقعہ پر برملا اظہار بھی کیا جا چکا ہے۔ اس موقعہ پر طالبان کی حمایت یافتہ جماعت یا اُن کے حمایت یافتہ وزیرِ اعظم کو لانے کی سازش جیسی باتیں ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں ہیں جس کے پیچھے یقینا بین الاقوامی سازشوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی جیسے سنگین خطرے کا ادراک کرتے ہوئے ایک متفقہ قومی موقف اپنایا جائے تا کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے مزید تفریق پیدا نہ کی جائے۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے جمہوری عمل کی مکمل حمایت اور انتخابات کے بروقت انعقاد کے عزم کا اظہار ایک انتہائی حوصلہ افزا اور خوش آئین بات تھی جس سے دہشت گردی اور ملک دشمن عناصر کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ حالات کچھ بھی ہوں انتخابات کا وقت پر منعقد ہونا انتہائی ضروری تھا جس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو شعور،بصیرت اور بہادری کا مظاہرہ کیا ۔ قوموں پر اس طرح کے مشکل وقت آتے رہتے ہیں مگر تاریک شاہد ہے کہ کامیاب وہی قومیں ہوتی ہیں جو حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہیں۔ اس موقعہ پر انتخابات میں کسی بھی قسم کی تاخیر یا تعطل در اصل دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے مترادف ہو گا۔دہشت گردی کسی بھی قسم کی صورت میں ہو اس کی بھر پور مذمت کرنی چاہیے مگر بات صرف مذمت کی نہیں عمل کرنے کی ہے۔ انتخابی مہم کو یکساں طریقے سے چلانا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے جس کا استعمال بحرحال اسے حالات و واقعات کے مطابق خود ہی کرنا ہے۔ عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پُرکشش دعوے او ر وعدے ہمارے ہاں سیاست کا ایک بنیادی عنصر ہے مگر نفرت انگیز گفتگو،ذاتیات پر حملے اور اخلاقی حدود کو پھلانگنا ماحول کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ ہمیں مخالفت اور نفرت میں فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ سیاست میں بات دلیل سے کی جاتی ہے تاکہ بے پرکی اڑائی جاتی ہے۔ انتخابات کو کامیاب کرانے میں ہی ہمارے ملک اورسیاسی جماعتوں کی عزت ہے یہی وقت ہم سب کے ایک ہونے کا ہے اس وقت کو ہمیں مل کر تھام لینا ہوگا کہ جب وقت گزر جائے توپھر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔