انتخابات ۔۔جمہوریت گریز قوتوں کو شکست
انتخابات ۔۔جمہوریت گریز قوتوں کو شکست
جمہوریت ایک معتدل سوچ اور رویوں کا نام ہے۔ یہ وہ طرز عمل ہے جو درگزر برداشت کے جذبوں کو قوی کرتے ہوئے عدل انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دیتا ہے ۔ ریاست کے ہر باشندہ کو بلا تمیز رنگ نسل مذہب برادری نہ صرف یکساں مقام دیتا ہے بلکہ مملکت کے ہر فرد کو انفرادی نشودنما اور اجتماعی ترقی کے امور میں برابری کے مواقع فراہم کرتی ہے ۔ جمہور سے مسلسل رابطہ اور عزت و احترام دینے کو کہتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں ایک ایسا مفاد پرست اور خود غرض ٹولا مضبوط تر ہو چکا ہے جو جمہوریت کی جڑوں کی جمہورتک رسائی نہیں ہونے دیتا اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت پسند افراد وسائل کی کمی کے باعث آگے نہیں بڑھ سکتے نہ ہی قیادت کے منصب تک پہنچنا ممکن ہے ان کے برعکس جاگیر دار سرمایہ دار اپنی بے تحاشا مال حرام کی بدولت پارٹیوں پر قابض ہو جاتے ہیں ۔ یہ تکبر زدہ لوگ عوام میں جانا پسند کرتے ہیں نہ عوامی مسائل سے شناسا ہوتے ہیں ۔ یہ طبقہ ملک میں جمہوریت کے پنپنے سے خائف رہتا ہے ۔ انتخابی مراحل سے گزرنے کی زحمت سے گریزاں لوگ غیر جمہوری راستوں کی تلاش میں کوئی نہ کوئی چور دروازہ اختیار کر لیتے ہیں ۔ہمارے ملک کی موجودہ قیادتیں کسی نہ کسی غیر جمہوری عمل کی پیداوار ہیں ۔ آمریت کی کوک سے پیدا ہوئے آمروں کی گود میں پلنے والے جمہوریت کے چمپئن بنتے نہیں تھکتے ۔ جمہوریت گریز قوتیں ہمیشہ انتخابات کے انعقاد کو مشکوک کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔ پانچ سال یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ تین سال کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت ضروری ہے ۔ بنگلہ دیش ماڈل بننا بہتر ہے یعنی کوئی نہ کوئی غیر جمہوری طرز اختیار کیا جائے ۔
11مئی 13کے انتخابات کے اعلان کے دن سے ہی ملک کے کونے کونے میں یہ خبر عام سنائی دے رہی تھی کہ انتخابات ہو ہی نہیں سکتے وطن عزیز کے تین صوبے دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ کے ہاتھوں نہا گئے ۔ انتخابات کے اجتماعات جنازوں اور تدفین کی مجالس میں تبدیل ہوگئے ۔ انٹیلی جنس اینجنسیاں اور رینجرز بے بس لاچار نظر آتی رہیں ۔ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کا وجود بھی حالات کو بدلنے میں موثر ثابت نہ ہو سکا ۔ موت کا بھیانک رقص الیکشن کے دن بھی جاری ہے ۔ انتخابی امیدوار گھروں سے نکلتے خوفزدہ ہیں ۔ عوام کی جان و مال غیر محفوظ ہے مگر تینوں صوبوں میں انتخابی عمل اپنے شیڈول کے مطابق انجام پاگئے مگر سینکڑوں جانیں گنوائیں جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے وہاں 148نشستوں پر معرکہ اپنے باب عروج پر نظر آیا ۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے جلسے جلوس اور ریلیاں صبح و شام جاری رہیں جن میں دھواں دار تقاریر میں ایک دوسرے پر الزامات و بہتان کا بے لگام اور بیہودہ شور جمہوریت کے حسن کو گہنا تارہا تھا ۔ایک دوسرے کی کردار کشی ، دشنام اندازی میں سبقت لے جانے کو کامیابی تصور کرتے رہے۔ بے حجاب رہنما بے نقاب ہوتے رہے ۔انتخابی نتائج کو ہر صورت ہر قیمت پر اپنے حق میں کرنے کے لئے کسی حد تک جانے کو تیار دیکھے گئے ۔ آڈیو وڈیو کے ذریعے سابقہ گفتگو جس میںشہباز شریف جسٹس قیوم کو انتخابی عذرداری کے فیصلے کو میاں نوازشریف کی فرمائش کے مطابق کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں ۔ ایسی ہی دوسری آڈیومیں سیف الرحمن سے گفتگو میں جسٹس عبدالقیوم یقین دہانی کرارہے ہیں۔ پی پی کے استاکار رہنما رحمن ملک نے منی لانڈرنگ کے الزامات اسحق ڈار پر عائد کئے ۔ گھمسان کی جنگ کا یہ عالم رہا کہ بڑے بڑے مقرر اپنی زبان پر قابو نہ رکھ سکے ۔ تحریک انصاف کے قائد جوش خطابت میں اپنے پرستاروں کو تلقین کرتے ہیں کہ نیا پاکستان بنانا ہے تو 11مئی کو شیر کے نشان پر مہر لگائیں ۔ مسلم لیگ ن نے جناب عمران کے انہی الفاظ کو قید کرکے اشتہار کی شکل میں تبدیل کر دیا ۔ اسی طرح قبلہ شہباز شریف بڑے جذباتی انداز میں وعدہ کرتے دکھائی دیتے ہیں آپ فرما رہے تھے اگر آئندہ حکومت کا موقع ملا تو دو سال کے اندر اندر بجلی ختم کر دوں گا ۔ حضور کہنا چاہتے تھے کہ لوڈشیڈنگ یا اندھیرے ختم کر دوں گا مگر منہ مبارک سے نکلا کہ بجلی ختم کر دوں گا ۔ عجب طرفہ منظر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ایک دوسرے کو زرداری کا ساتھی ہونے کا طعنہ دیتے رہے مگر مسٹر زرداری صورت حال کو بڑی خاموشی سے انجوائے کرتے رہے ۔
موجودہ انتخابات کے پر امن انجام پذیر ہونے میں تمام سیاسی عناصر اور سرکاری اداروں کا بھرپورمثبت کردار ہے ۔یہاں ان جماعتوں کے کردار کا ذکر کرنا نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے انتخابات کی بھاری قیمت ادا کرنے کے باوجود استقامت کا ثبوت دیا ۔ایک موقع ایسا آیا کہ تمام ملک سکتہ کی حالت میں آگیا ۔لاہور تحریک انصاف کے قائد کے ساتھ حادثہ پیش آیا عمران کا بلندی سے گرنے اور پھر کارکنوں کے ہاتھوں میں بیہوشی کے عالم کے مناظرنے پوری قوم کو صدمہ میں غرق کر دیا تھا مگر خدا نے اپنی خاص رحمت کے ذریعے عمران کو عافیت میں رکھا۔ اس کے بعد سابقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کے اغو ا نے بھی انتخاب کو مشکوک کر دیا ۔یہ لوگ اپنے عزیزوں ساتھیوں امیدواروں اور کارکنوں کے جنازے اٹھاتے رہے ۔ گھر اجڑتے رہے ، آگ و خون میں گھرے رہے مگر انتخابات سے فرار اختیار نہیں کیا۔ کسی کو ایم کیو ایم ، اے این پی ، پی پی اور جے یو آئی سے نظریاتی اختلاف ہو سکتا ہے ۔سابقہ سیاست بھی ناقابل قبول ہو سکتی ہے مگر الیکشن 2013کے خونی انتخابات میں ان کا حصہ لینا تمام شرانگیزیاں ، ہولناک دھماکوں پر ضبط کا مظاہرہ ہی نہیں بلکہ انتخابات کو جاری رکھنے ور جمے رہنے کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کی استقامت کے باعث جمہوریت کو بڑی تقویت اور استحکام میسر آیا ہے اور جمہوریت گزیر قوتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ان کے سارے منصوبے ساری سازشیں سارے جال خاک میں مل گئے ۔ تینوں چھوٹے صوبوں کے عوام خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے اتنے سنگین حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے جمہوریت کو دوام بخشا ۔امید ہے تمام اسٹیک ہولڈر انتخابات کے نتائج کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے بحرانوں مصیبتوں سے قوم و ملک کو نکالنے کے لئے مستقبل کو سامنے رکھ کر حکومت سازی میں بھی اسی جذبہ سے آگے بڑھیں گے۔ انتخاب جیتنے اور ہارنے والے دونوں فریق ایک ہی تعمیری جذبہ سے قومی وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سابقہ کوتاہیوں شکر رنجیوں کو بھلا کر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کی بھلائی و خوشحالی کے ایسے منصوبوں پر عمل پیرا ہونگے جو آنے والی نسلوں کے لئے ثمر خیز ہو سکیں ۔انتخابات کے نتائج میں ملنے والا واضح مینڈیٹ عوامی شعور کا کا عکاس ہے اب ن لیگ پر کڑی ذمہ داری ہے کہ مملکت خداداد کا رخ اپنے کئے گئے وعدوں یعنی اقبال اور قائداعظم کے تصور کے مطابق اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے مطاق ڈھالیں ۔