• news
  • image

اردو صحافت کی درخشاں مثال.... عباس اطہر (مرحوم)

اردو صحافت کی درخشاں مثال.... عباس اطہر (مرحوم)

عباس اطہر کی وفات سے اردو صحافت کا ایک درخشاں باب بند ہو گیا ہے وہ بنیادی طور پر شاعر تھے اور ان کا تخلیقی ذہن ہمیشہ نئی سوچ کو منظر پر لاتا تھا اسے حسنِ اتفاق سمجھئے کہ وہ اردو صحافت سے وابستہ ہو گئے لیکن خوبی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحافت کو بھی تخلیقی انداز میں اس طرح استعمال کیا کہ اپنے دور میں نوجوان صحافیوں کے لئے مثال بن گئے اب یاد آتا ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب ان کی جدید تر شاعری کا مختصر مجموعہ ”دن چڑھے دریا چڑھے“ کے عنوان سے مکتبہ لائبریری لاہور نے پیپر بیک میں شائع کیا تھا۔ عباس اطہر اس وقت افتخار جالب کی ”نئی لسانی تحریک“ میں شامل ہو چکے تھے لیکن افتخار جالب کی تقلید کرنے کی بجائے اپنی نظمیں اپنے (Diction) ”ڈکشن“ میں کہہ رہے تھے۔ سرگودھا کے ممتاز وکیل عبداللہ شاہ کی صاحبزادی سے ان کی شادی ہوئی تھی اور وہ سسرال آتے تو ڈاکٹر وزیر آغا کی شام کی محفلِ دوستاں میں بھی آتے اور اس بحث میں بھی حصہ لیتے جو اس شام کا موضوع بن جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ عباس اطہر اس محفل میں آئے تو پروفیسر غلام جیلانی اصغر نے انکی کتاب ”دن چڑھے، دریا چڑھے“ کا تذکرہ چھیڑ دیا اور انہوں نے عباس اطہر کی مبہم علامت نگاری پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ عباس اطہر نے جیلانی صاحب کی تنقید بڑی طمانیت سے سنی لیکن جب وہ افتخار جالب کی بے معنویت اور گنجلک پسندی پر خبریں لگانے لگے تو عباس اطہر اٹھ کر چلے گئے اور اس کے بعد وہ کبھی اس محفل میں نہیں آئے۔ حالانکہ مجھے ان کے برادرِ نسبتی خلیل خالد شاہ سے جو میرے کلاس فیلو رہ چکے تھے، ان کی آمد کی خبری ملتی رہتی تھی۔
عباس اطہر 12 اپریل 1939ءکو مغلپورہ لاہور کے قریب ایک گاو¿ں تاج پورہ میں پیدا ہوئے، ان کا بچپن جھنگ کی رسیلی سرزمین پر گزرا جہاں ان کے والد عبدالرحیم کے ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ انہوں نے میٹرک اور ایف اے ساہیوال سے کیا اور پھر لاہور آ کر اسلامیہ کالج میں بی اے کرنے کےلئے داخلہ لے لیا۔ اس دوران انہیں ریلوے کے محکمے میں ملازمت اختیار کرنی پڑی اور تعلیم ادھوری رہ گئی چنانچہ بی اے کی تکمیل پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت میں کی۔ ریلوے کی ملازمت راس نہ آئی تو اس پر تین حرف بیج کر کراچی چلے گئے۔ یہیں ان کے باطن سے ایک فعال صحافی بیدار ہوا اور ان کی اس صلاحیت و شوکت صدیقی نے روزنامہ ”انجام“ میں پروان چڑھایا۔ لاہور واپس آئے تو انہیں اخبار ”امروز“ میں جگہ مل گئی جو اس دور میں بائیں بازو کا ممتاز اخبار شمار ہوتا تھا لیکن اب پریس ٹرسٹ کی تحویل میں آیا ہوا تھا۔ یہاں عباس اطہر کی شخصیت کا ایک اور زاویہ ٹریڈ یونین لیڈر کی حیثیت میں اجاگر ہوا اور انہیں پی پی اہل ورکرز یونین کا سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں صحافیوں نے ہڑتال کی تو عباس اطہر نے اس ہڑتال کو کامیاب بنانے میں بے حد فعال کردارادا کیا۔ ہڑتال کامیاب رہی سب مطالبات مان لئے گئے لیکن جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے ایک سو سے زیادہ صحافیوں کو برطرف کر دیا۔ ان میں عباس اطہر بھی شامل تھے۔
ایک تخلیقی صحافی کے طور پر عباس اطہر کے جوہر اخبار ”آزاد“ میں کھلا ور انہوں نے اخبار کی شہ سرخی کو بلند آہنگ کر دیا۔1970ءکے عام انتخابات کے بعد ”ادھر تم، ادھر ہم“ اس سرخی نے چیختے چنگھاڑتے انداز میں اخبار ”آزاد“ سے عباس اطہر نے ہی ابھاری تھی ”آزاد“ بند ہو گیا تو وہ پی پی پی کے اخبار ”مساوات“ کے مدیر بنائے گئے ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف محمد احمد قتل کیس کا مقدمہ چل رہا تھا۔ عباس اطہر نے بھٹو کے عدالتی بیانات کو ”مساوات“ میں اپنی شہ سرخیوں سے شائع کیا تو پیپلز پارٹی کے ”بچے جمہورے“ بھی ان کی جرا¿ت مندی پر حیرت زدہ رہ گئے لیکن اس کی سزا خود عباس اطہر نے بھگتی۔ جنرل ضیاءالحق کے کارندوں نے انہیں گرفتار کر لیا اور قلعہ لاہور میں نظر بند کر کے ان پر شدید و سنگین تشدد کیا گیا۔ اس دوران انہیں امریکہ میں سیاسی پناہ مل گئی سات آٹھ سال کے بعد واپس آئے تو حالات بدل چکے تھے لیکن انہوں نے کسی اور منافع بخش پیشے میں قسمت آزمانے کی بجائے صحافت میں ہی پناہ حاصل کی اور ”صداقت“ اور ”خبریں“ میں مختصر مدت کی ملازمت کرنے کے بعد ”نوائے وقت“ میں آ گئے جو نظریاتی اعتبار سے دائیں بازو کا اخبار ہے اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی شہرت رکھتا ہے۔
”نوائے وقت“ میں عباس اطہر کے سیاسی اور تہذیبی کالم ”کنکریاں“ نے بہت شہرت حاصل کی۔ ”نوائے وقت“ ان کے سیاسی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اس اخبار سے ان کی وابستگی کو جیالے ”ابن الوقتی“ قرار دیتے لیکن عباس اطہر فخر سے کہتے کہ صحافت میں اپنے نظریات کو تحفظ دینے کا سبق انہوں نے مجید نظامی صاحب سے سیکھا ہے۔ اس لحاظ سے وہ نظامی صاحب کو اپنا ”استاد“ تسلیم کرتے تھے اور ”نوائے وقت“ کو ”مکتب صحافت “ قرار دیتے تھے جو صحافی کو پیشہ ورانہ آداب سکھاتا تھا اور اختلافِ رائے کا حق دیتا تھا۔
سرگودھا کی ملاقاتوں کے بعد مجھے عباس اطہر کے قرب و جوار میں رہنے اور کام کرنے کے مواقع اخبار ”خبریں“ اور ”نوائے وقت“ میں کئی برسوں تک ملتے رہے۔ عباس اطہر رپورٹنگ کے ڈپٹی چیف ایڈیٹر تھے اور میں ان کے ساتھ کے کمرے میں شذرہ نویسی کرتا تھا ہم دونوں کو جناب مجید نظامی کی رہنمائی حاصل تھی۔ عباس اطہر اس ”بیک گراو¿نڈ میٹریل“ سے اپنے کالم ”کنکریاں“ میں استفادہ کرتے اور نقطہ اختلاف تہذیبی انداز میں ابھارتے لیکن طنز کی انی کو تیز رکھتے۔ اقتدار سے محروم اور حزب اختلاف کے سیاست دان سے ہمدردی کا چلن عباس اطہر نے جناب مجید نظامی سے ہی سیکھا تھا اور اس طر ح اقتدار پر قابض لوگوں کی نگرِ غضب برداشت کرنا بھی ان کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انہیں مجید نظامی صاحب کا پورا اعتماد حاصل تھا اور جب وہ اخبار ”ایکسپریس“ میں گئے تو نظامی صاحب نے ان کے فیصلے کے حق کو تسلیم کیا۔ دوسری طرف عباس اطہر ان کا ذکر کرتے تو ان کی باتوں میں احسان کا تاثر شامل ہوتا تھا۔عباس اطہر کی شاعری پر صحافت غالب آگئی تھی لیکن انہوں نے شاعری کی دیوی کو نامہربان نہیں ہونے دیا۔ وہ بھٹو کی سیاست کے شیدائی تھے ان کے عدالتی قتل پر انہوں نے شاعری کی کتاب ”ذکر“ شائع کی۔ ان کا مجموعہ ”کہا سنا“ شائع ہوتے ہی ضبط کر لیا گیا۔ شاعری کی آخری کتاب ”آواز دے کے دیکھ لو“ چھپی تو مجھے اپنے دستخطوں سے عطا کی اور اس پر اپنا تبصرہ آزادی سے لکھنے کی اجازت بھی دی۔ بلاشبہ عباس اطہر صاحب کردار صحافی تھا جس کے تمام انداز منفرد اور تخلیقی تھے۔ ان کی رحلت سے اس پیشے کو آبرومند بنانے والا صحافی رخصت ہو گیا ہے افسوس، اے وائے افسوس!

epaper

ای پیپر-دی نیشن