اک ستم اور میری....اب بھی جان باقی ہے
اک ستم اور میری....اب بھی جان باقی ہے
مکرمی!پڑھ لکھ کے نواب بننے کے خواب بچپن سے دکھائے جاتے ہیں اور یہ خواب پورے بھی ہو جاتے ہیں اگر MBAکر کے کسی بنک میں لگ جائیں ایم اے اکنامکس کر کے اکاﺅنٹس کا شعبہ سنبھال لیں۔ ایم ایس سی فزکس اور کیمسٹری وباٹنی کر کے کسی کیمیکل انڈسٹری ایٹمک پاور یا فارمیسی ڈیپارٹمنٹ میں ہزاروں لاکھوں کمائے جائیں اور یہی ایم اے کی ڈگری لے کر انسان جب تعلیمی ادارے میں آجائے تو تنخواہ سکڑ کر لاکھوں سے ہزاروں اور سینکڑوں میں آجاتی ہے۔ ایک عزت تھی اس شعبے میں وہ میڈیا کے پروپیگنڈے اور اسمبلی میں پاس ہو جانے والے ”نہ مارنے“ والے بل سے ختم ہو گئی ہے۔ پہلے لوگ بچے کو داخل کرواتے ہوئے کہتے تھے۔ گوشت آپکا ہڈیاں ہماری اور اب بچوں کو داخل کرواتے ہوئے کہتے ہیں اگر زرا بھی میرے بچے کو ہاتھ لگایا تو جیل آپ کی سو آجکل بچوں کو پڑھانا جوئے شیرلانا ہوگیا ہے کیونکہ بقول سکول اونرز کے بچوں کو ہاتھ بھی نہیں لگانا۔ اسمبلی میں بل پاس ہو گیا۔ تین سے پانچ سال قید ہو جائے گی اور سکول ذمہ دار نہیں ہو گا ٹیچرز کی بچوں سے ذاتی دشمنی نہیں ہوتی تاہم ان کی اصلاح کے لئے تھوڑی بہت مار ضروری ہوتی ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے لیکن کیاکیجئے ہماری اسمبلی کا اور قربان جائیے ان کے قانون پر چوری کرنے والے کے ہاتھ نہ کاٹے گئے اصلاح کر نے والے ہاتھ کاٹ دئیے گئے۔ بدعنوان لوگوں کو جیل نہ بھیجا گیااور ایمانداری سے روزی کمانے والے کو تین اور پانچ سال کے لئے جیل بھیج دیا جائے گا۔ اسمبلی میں بیٹھنے والوں کے خود کے بچے تو باہر کی یونیورسٹیز سے پڑھتے ہیں اور پاکستان کے سکول میں ا ن پڑھ لوگو ں سے لیکر ہر طرح اور ہر ماحول سے بچے پڑھنے آتے ہیں اسلئے ایسے قانون پاس کر یں جن میں استاتذہ کی عزت اور ان کی محبت سکھائی جائے اب تو بچوں کی بد تمیزی اور خود غرضی کا یہ عالم ہے کہ عید پر اپنی ہزاروں کی شاپنگ کر تے ہوئے ٹیچرز کے لئے ایک پھول اور ایک کارڈ تک نہیں خریدا جاتا نسلوں کے آمینوں کی عزت کیجئے۔(ریحانہ سعیدہ،گڑھی شاہو لاہور)