• news

وہ جو ہار گئے اور بلور صاحب

میں ہارنے والوں کے لئے کالم لکھ رہا ہوں۔ مجھے خوشی نہیں ہوئی ہے مگر افسوس بھی نہیں ہوا۔ وہ جو جیت گئے۔ انہیں مبارکباد دینے والوں کی قطار لمبی ہے مگر ہر کوئی قطار درقطار انتظار میں ہے اور ہم تو کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ ہارنے والوں میں غلام احمد بلور کی باتیں اتنی مزے دار ہیں کہ وہ نہ ہارتے تو ہم ان باتوں سے محروم رہ جاتے۔ انہوں نے برملا کہا اور برحق اور برمحل کہا کہ اے این پی کو اور ہمیں خان عبدالولی خان نے برباد کیا۔ یہ اے این پی کے بری طرح ہارنے سے بھی زیادہ شرمناک ہے کہ ان کے والد محترم قائداعظمؒ کے مقابلے میں دوسری بار ہار گئے اور پھر پاکستان میں دفن ہونا بھی قبول نہ کیا بلکہ برداشت نہ کیا۔ ان کے بیٹے عبدالولی خان بڑی کوشش کے باوجود پاکستانی گاندھی نہ بن سکے۔ وہ جس پاکستان کے مخالف تھے اس کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے رہے۔ ان کا ایک ”کام“ پاکستان کی مشکلات کے لئے یادگار رہے گا کہ انہوں نے بھارت کی ایما پر کالا باغ ڈیم کی مخالف کی۔ اس کے نتیجے میں لوڈشیڈنگ پاکستان کے لوگوں کا مقدر بنی اور پاکستان کے بنجر ہونے کا اندیشہ بھی بڑھ گیا ہے۔ ان کے بیٹے اسفندیارولی نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور اپنے ”بھارتی مشن“ کو جاری رکھا۔ ہماری حکومتیں صرف دھمکیوں اور گیدڑ بھبھکیوں سے ڈر گئیں اور اب دھماکوں سے خود اسفندیارولی اسلام آباد میں چھپے بیٹھے ہیں۔ ان کے دو کام تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں ایک تو امریکہ سے گہرے تعلقات کی وجہ سے صوبہ سرحد میں اپنی پارٹی اے این پی کی حکومت بنوائی اور صرف پارٹی سیاست چلائی۔ ظلم یہ ہے کہ خان عبدالغفار خان کے نام پر پشاور ائرپورٹ کا نام رکھ دیا جس سے سرحدی گاندھی کی روح کو سخت تکلیف پہنچی ہو گی۔ انہوں نے اپنی قبر بھی پاکستان میں نہ بننے دی تھی اور ان کے پوتے نے یہ ظلم کر دیا۔ اس ”گناہ“ کے لئے اسفندیارولی کو کبھی معافی نہیں ملے گی۔ دوسرا کمال یہ کیا کہ اپنے والد اور اپنے دادا سے آگے نکل گئے۔ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے دوران چکر چلا کے کچھ امریکہ سے دباﺅ بڑھوا کے صوبہ سرحد کا نام صوبہ خیبر پختون خوا (خیبر پی کے) رکھوا لیا۔ اس کے لئے اسفندیارولی نے ہمیشہ صدر زرداری کا شکریہ ادا کیا اور نوازشریف کے لئے ممنونیت کا اظہار کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کام میرا دادا میرا باپ اور میں خود نہ کر سکا۔ وہ بڑی آسانی سے خودبخود ہو گیا۔ اس کے بعد اے این پی کی حکومت نے نصاب تعلیم بھی تبدیل کرنے کی کامیاب کوشش کی، اب عمران خان کی حکومت کیا ”تبدیلی“ لاتی ہے۔ اسفندیارولی کے لئے ان کے مخالف بھی یہ بات نہیں کر سکے جو ان کے ساتھی غلام احمدبلور نے کر دی۔ میں بلور صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں یہ اس کے ہارنے کی مبارکباد بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ وہ نہ ہارتے تو یہ بات کیسے کرتے جو سو باتوں کی ایک بات ہے۔ اسفندیارولی بھی ہار گئے ہیں۔ وہ بھی ایسی ہی زبردست بات کریں۔ ان کے سامنے ریلوے تباہ ہوتی رہی مگر انہوں نے بلور صاحب کے لئے کوئی بات کرنے کی جرات نہ کی۔ اندرکی بات یہ ہے کہ بلور صاحب کو یہ دکھ بھی تھا اسفندیارولی نے بلور فیملی کو نظرانداز کرکے ایک کم عمر بلکہ نوعمر ہوتی صاحب کو وزیراعلی بنا دیا۔ اسفندیارولی کے وزیراعلی غلام حیدر ہوتی نے کچھ نہیں کیا مگر وہ انتخاب جیت گئے ہیں۔ نجانے ہار جیت کا معیار کیا ہے۔ البتہ یہ ہوا کہ ہوتی صاحب کو کوئی اپنی مدت پوری کرنے سے نہ روک سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرکز میں صدر زرداری بیٹھے ہوئے تھے اور مفاہمتی سیاست میں وہ بڑا کمال رکھتے ہیں جب کہ نوازشریف کے لئے مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ کوئی مفاہمت نہ تھی۔ اب کے پنجاب حکومت کے استحکام کی وجہ یہ بھی تھی کہ نوازشریف نے صدر زرداری کی مفاہمت کو قبول کر لیا تھا۔ یہ بھی کامیاب سیاست کا تجربہ ہے۔ منظور وٹو کا سیاسی جرم یہ بھی ہے کہ انہوں نے ایک سچے دل والے پاکستانی کارکن وزیراعلی وائیں صاحب کی حکومت ہٹا کے پیپلز پارٹی کی مدد سے اپنی حکومت بنا لی۔ اپنے اس سیاسی جرم کا اتنا احساس جرم وٹو صاحب کو تھا کہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام ”جرم سیاست“ رکھا ہوا ہے۔ ان کی حکومت پیپلز پارٹی نے خود توڑ دی اور اب شاہد اسی زیادتی کا شاخسانہ ہے کہ منظور وٹو ہار گئے ہیں۔ صدر زرداری نے انہیں پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر شائد اسی انجام کے لئے بنایا تھا۔ صدر زرداری کی سیاست کو سمجھنا حریفوں کی طرح حلیفوں کے بس کی بات نہیں۔ نواز شریف کو ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ انہیں صدر زرداری کا حلیف اور پھر حریف ہونے کا تجربہ ہے۔ کالم کے آخر میں بلور صاحب کی ایک بات ان کے لئے عبرت کا سامان بن سکتی تھی۔ امیر مقام کی شکست بھی عبرت کا نشان ہے۔ اچھا ہوا کہ اللہ نے امیر مقام سے نواز شریف کو بچا لیا ہے مگر طارق عظیم اور ماروی میمن کا مقام بھی کم نہیں۔ وہ بھی جنرل مشرف کے بہت قریب تھے۔ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم تھے۔ کرپٹ اور نااہل وزیراعظم تو الیکشن لڑ نہ سکے۔ ان کے بیٹے اور بھائی ہار گئے۔ یہاں بھی اپنی یہ پہچان ”ایم بی بی ایس“ میاں بیوی بچوں سمیت والی بات قائم رکھی ہے۔ راجہ صاحب کو الیکشن لڑنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ ان کی عزت رہ جاتی مگر یہ لوگ سیاست میں عزت بے عزتی کو کچھ نہیں سمجھتے۔ جتنے وزیراعظم بننے کے امیدوار تھے وہ سب ہار گئے۔ وہ ہارے ہوئے امیدوار ہیں۔ احمد مختار کو میں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے نائب وزیراعظم کے حق میں دستبردار ہو جائیں۔ صدر زرداری انہیں حکم دیتے کہ بیٹھ جاﺅ، اب ان کا بھٹا بیٹھ گیا ہے۔ قمرالزمان کائرہ کے لئے افسوس ہے۔ شاید انہیں خود بھی افسوس ہو۔ وزیر مملکت تسنیم قریشی کو مسلم لیگ ن کے دل والے اچھے نوجوان حامد حمید نے بری طرح ہرایا۔ ہارنے والے فرزانہ راجہ کی بے نظیر انکم سپورٹ کی سپورٹ سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکے اگر کوئی پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر الزام دھرے تو فریال تالپور اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کیسے جیت گئیں۔ سب سے برا بیان ندیم افضل چن کا تھا۔ بے چارہ راجہ ریاض مارا گیا۔ نوید چودھری کے لئے افسوس ہے مگر خود اسے کوئی افسوس نہیں ہے۔ وہ صدر کے معاون کے عہدے پر فائز تھے فائز رہیں گے۔ غلام احمد بلور نے الیکشن سے پہلے ایک ٹی وی چینل پر بہت رعونت سے کہا میں دوبارہ جیتوں گا اور ریلوے کا وزیر بنوں گا۔ انہیں ریلوے کی تباہی اور اپنے بھائی بشیر بلور کے قتل کا بھی خیال نہ آیا۔ ایسی کئی مثالیں پاکستانی تاریخ میں موجود ہیں۔ میرے دوست اور پڑھے لکھے سیاستدان خواجہ سعد رفیق نے اپنے ساتھ گفتگو میں بیٹھے ہوئے شفقت محمود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو بالکل نہیں جیت سکیں گے اور پی ٹی آئی کا ایک ہی بندہ قومی اسمبلی کے لئے جیتا ہے اور وہ شفقت محمود ہے شفقت محمود مسلم لیگ ن میں بھی رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے لئے بھی پی ٹی آئی کا اسلم اقبال ہے اور بہت اخلاق اور اخلاص والا آدمی ہے۔ وہ پچھلے سے پچھلے دور میں وزیر تھے مگر وزیر لگتے نہیں تھے۔ اور یہی کسی سیاست دان کے لئے سب سے بڑی خوبی ہے۔ جیتنے والوں کے لئے یہی میرا پیغام ہے جو مبارکباد بھی ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن