• news

یہ تبدیلی کی ابتداءہے....؟

چار عناصر نے انتخابات 2013ءکو کامیاب ترین انتخابات بنا دیا۔ سب سے پہلے ہم فخرو بھائی اور الیکشن کمیشن کا شکریہ ادا کریں گے کہ انہوں نے نہ صرف فول پروف انتظامات کئے بلکہ گاہے گاہے عوام کے سامنے آ کر ان کا مورال بھی بلند رکھا اور ایسی تمام افواہیں جو آخر وقت تک پھیلائی جاتی رہیں کہ انتخا بات نہیں ہوں گے معطل ہو جائیں گے گڑ بڑ ہو جائے گی وغیرہ کی نفی کر دی۔ الیکشن کے انعقاد کی بات جس تدبیر اور نیت کے ساتھ شروع ہوئی تھی اسی کامیابی کے ساتھ تکمیل کو پہنچی اور تخریب پسند عناصر کے ارادے خاک میں مل گئے۔اس ضمن میں دوسرا نمبر الیکٹریکل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا آتا ہے میڈیا بھی ان انتخابات کے لئے تحسین اور خراج کا مستحق ہے۔ سارے شہروں کو صنم خانہ بنانے کی بجائے پوری کمپین واضح طور پر میڈیا پر ہوتی رہی۔ ہر شخص گھر بیٹھے ہوئے غور کرتا رہا اور اپنے لیڈر کو تولتا رہا۔ انتخابات کے فوراً بعد سے لے کر اب تک میڈیا پل پل کی خبریں نشر کر رہا ہے اور جیتنے و ہارنے والوں کی اطلاع فوراً پہنچا رہا ہے۔ اس بات نے گلیوں اور چوراہوں پر پیدا ہونے والی کئی بدمزگیوں کو روک رکھا ہے۔ ااس کامیاب تبدیلی میں تیسرا نام ووٹرز کا آتا ہے....پاکستان میں پہلی بار ووٹرز نے اپنے دل میں اپنی پارٹی چُن کے رکھ لی تھی اور جس گھر میں جس فرد نے اپنی جو پارٹی چن لی تھی ااس کو ووٹ دیا پہلی بار ہر ناخواندہ اور خواندہ پاکستانی مرد و زن کو اس بات کا احساس ہوا کہ پاکستان کو ان کے ووٹ کی اشد ضرورت ہے پاکستان ان سے ووٹ مانگ رہا ہے۔ پاکستان کی نمناک نگاہیں ان کے ووٹ پر لگی ہیں۔ نوجوانوں کا ذوق و شوق دیدنی تھا رات گئے تک اپنی موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں پر پارٹی کے جھنڈے لئے غول کے غول نظر آتے رہے۔ دوسری طرف خواتین کے اندر بھی یہی ولولہ دیکھا۔ گزشتہ دو الیکشنوں میں مجھے اپنے محلے کے ہر گھر میں جانا پڑتا تھا۔ یاد دھانی کے لئے....مگر اس مرتبہ ہر خاتون خانہ خود ہی باہر نکل آئی۔ خواتین کے بوتھوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں بنی ہوئی تھیں میں بھی ایک قطار میں لگ گئی تھی جو اتنی لمبی تھی کہ میری باری ڈیڑھ گھنٹے کے بعد آئی۔ اس کے باوجود کسی عورت کے ماتھے پر شکن نہیں ابھری۔ دھکم دھکا نہیں ہوا، آگے نکلنے کی کوشش نہیں ہوئی.... یہ وہ پولنگ سٹیشن تھے جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ سے لے کر ادنیٰ ورکر تک موجود تھیں۔ بڑی بڑی موٹروں میں آنے والی عورتیں بھی تھیں اور باپ یا بیٹے کا کاندھا پکڑ کر چلنے والی غریب اور ضعیف عورتیں بھی تھیں۔ ہر پولنگ سٹیشن کے باہر موٹروں کی لمبی قطاریں تھیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس بار پاکستان کا ہر طبقہ ووٹ دینے کے لئے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے باوجود شہروں میں سکون تھا۔ سب ووٹرز کے ذہن پر صرف اور صرف پاکستان ہی سوار تھا....ہم نے انہی کالموں میں اکثر لکھا تھا کہ اس قوم کو تین بار باقاعدگی سے ووٹ ڈالنے کی مشق کرا دو۔ ان کا مزاج جمہوری ہو جائے گا۔ 2002ءکے انتخابات کو بھلے ہی آپ جمہوری الیکشن نہ مانیں مگر کم ازکم ڈکٹیٹر شپ سے نکلنے کا ایک بہانہ تو تھا 2008ءکے انتخابات کو بھلے ہی حادثاتی انتخابات کہہ لیں لیکن سیاسی پارٹیوں نے باقاعدہ حصہ لیا تھا اور ایک جمہوری حکومت ترتیب دی تھی جس کے بطن سے 2013ءکے جمہوری انداز والے انتخابات نے جنم لیا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی تبدیلی ہے جو ممکن ہے اور بہت سی تبدیلیوں کا نکتہ آغاز ہو۔ زیادتی ہو گی اگر میں اندر بیٹھے ہوئے عملہ کی تعریف نہیں کروں گی جہاں جہاں میں نے دیکھا اور سنا عملہ ہر گھڑی تعاون کر رہا تھا ووٹرز کو نمبرز ڈھونڈھ کر پرچی دے رہا تھا کئی پولنگ بوتھ پہ بعض خواتین نے دبے لفظوں سے بتایا بھی کہ صبح سے ایک کھیل اڑ کر ان کے منہ میں نہیں گئی۔ حتی کے وہ وضو کے لئے باتھ روم میں بھی نہیں جا سکیں کیونکہ ووٹرز کا دباﺅ اور رش بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ حالانکہ ووٹنگ کے دوران پارٹیاں ان کو کھانے پینے کی ااشیاءاندر پہنچاتی ہیں مگر اس مرتبہ ایسا عالم ہوا کہ سب تن من سے اس کام میں لگے رہے۔ شاباش ہے عملے کے لئے بھی۔ عزت مآب جنرل کیانی نے ایک تاریخی تقریر کرکے ساری افواہوں کے منہ بند کر دیئے ہمارے ملک میں ان گنت افواہ ساز فیکٹریاں ہیں جو دن رات افواہیں گھڑ کے ہوا کی زبانی فضا میں پھیلاتی رہتی ہیں جنرل صاحب کی تقریر کے بعد بھی کئی لوگ میرے ساتھ شرطیں لگاتے رہے کہ دیکھنا آخر وقت میں الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔ یہ ہو گا وہ ہو گا....مگر اللہ کا بہت شکر ہے ہمارے آرمی چیف نے ایک قابل قدر رول ادا کیا بلکہ فوجی جوان امن عامہ کی ضمانت بن کر باہر نکل آئے۔ اس بات میں اب کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان ایک جمہوری مزاج ملک بن چکا ہے جیتنے والوں نے بھی میڈیا پر آ کر عالی ظرفی کاثبوت دیا ہے اور ہارنے والوں نے بھی اپنی ہار کو خوش دلی سے تسلیم کیا ہے۔ہارنے والے یہ بھی ضرور سوچیں کہ ووٹرز ان سے ناراض کیوں تھے؟ ڈویلپمنٹ کے کام جو اپنے حلقوں میں کروانے کا رواج ہے قانون سازی جو ہاﺅس کے اندر نظریہ ضرورت کے تحت کی جاتی ہے اس کا اثر عام پبلک پر نہیں ہوتا۔ عوام پر معیار زندگی بلند کرنے کا اثر ہوتا ہے۔ کامرس، معیشت، زراعت، منڈیاں جو بھاﺅ لگا رہی ہوتی ہیں۔ عام آدمی کی زندگی پر اس کا بڑا اثر پڑتا ہے۔ آٹا پچاس روپے کلو ہو جائے تو کوئی طبقہ خوش نہیں ہوتا۔اس مرتبہ الیکشن کمیشن کے اندازے کے مطابق 60 فیصد ٹرن آﺅٹ تھا اس میں جتنا بھی اضافہ ہوا ہے وہ لکھے پڑھے طبقے کے ووٹ دینے سے ہوا ہے وہ تعلیم یافتہ طبقہ جو کبھی ووٹ نہیں دیتا تھا 20 فیصد باہر نکل آیا۔ ہر پولیٹیکل پارٹی نے اپنے منشور میں تعلیم کو فوقیت دی ہے۔ اسمبلیوں کے اندر جانے والی تمام پارٹیاں اگر روز اوّل سے پاکستان کے اندر لٹریسی ریٹ بڑھانے پر کام شروع کر دیں۔ تو انشاءاللہ اگلے انتخابات میں تعلیم یافتہ طبقے کا ووٹ فیصلہ کن ہو گا اور سوچا سمجھا ہو گا نہ انہیں کوئی لالچ ہو گا نہ وہ خواہ مخواہ کے کسی الزام میں گرفتار ہوں گے۔ ایک بات جو بڑی خوش آئند ہوئی وہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بالکل نئی سیاسی پارٹی نے اپنے آپ کو منوایا ہے اور دوسری پوزیشن حاصل کی ہے چالیس سال پہلے اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کا ورود ہوا تھااور 2013ءمیں پاکستان تحریک انصاف بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے سترہ سال کا عرصہ کوئی زیادہ نہیں ہوتا مگر سترہ سال میں عمران خان اور اس کی پا رٹی نے کئی پارٹیوں کو ٹف ٹائم دیا۔ مقابلے کے لئے انگیخت کیا اور کئی سیٹوں پر شکست بھی دی اور نسبتاً پڑھا لکھا باشعور طبقہ سامنے آیا.... حکومت بنا لینا ہی بہت بڑی کامیابی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی قدیم پارٹی انتخاب جیت جاتی ہے تو بڑی بات نہیں ہے۔ کسی نئی پولیٹیکل پارٹی کا انتخاب میں اترنا، چیلنج کرنا اور دوسری بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھرنا بہت بڑی بات ہے۔ یہ پاکستان ہی ہے جس میں چالیس سال کے اندر ایک دوسری بڑی پارٹی ابھری ہے اور لوگوں نے اسے خوش آمدید کہا ہے۔ اس ضمن میں کئی ملک پاکستان سے بہت پیچھے ہیں ہم اب آگے کی طرف کیوں نہ دیکھیں....؟؟

ای پیپر-دی نیشن