لوٹ کھسوٹ کرنے اور ڈاکے ڈالنے والوں کا احتساب ضرور ہو گا: شہباز شریف
لاہور (خصوصی رپورٹر) مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہبازشریف نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے اس کا فیصلہ پارٹی اور نوازشریف کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی عہدے کے لئے کوئی شخص بھی ناگزیر نہیں ہوتا، خیبر پی کے میں ہم دوسروں کو ساتھ ملاکر حکومت بنا سکتے ہیں لیکن جمہوریت کے تقاضے اور جمہوری سپرٹ کے مطابق ہمارا فیصلہ ہے کہ تحریک انصاف کو لارجسٹ پارٹی ہونے کے باعث وہاں حکومت بنانی چاہئے۔ وہ وہاڑی سے منتخب ہونے والے طاہر اقبال کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ آئندہ کابینہ کا سائز کیا ہو گا اس کا فیصلہ پارٹی اور نوازشریف کریں گے۔ الیکشن کا خاتمہ ہو چکا ہے الیکشن کی تلخیاں بھلا دینی چاہئیں۔ انہوں نے ہمارے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے ہم نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا آپ صدر زرداری کے استعفے کا مطالبہ بھی کریں گے۔ شہبازشریف نے کہاکہ وہ صدر زرداری کے استعفے کا مطالبہ نہیں کرینگے۔ آئین اور قانون کے مطابق ان کی جو مدت ہے وہ پوری ہونی چاہئے جہاں تک قوم کے ساتھ لوٹ کھسوٹ کرنے کا تعلق ہے اس کا حساب ہو گا اور ہم ایک ایک پائی کا حساب لیں گے۔ انہوں نے کہاکہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے ڈاکوﺅں کا ہر صورت حساب ہو گا۔ لوٹی ہوئی رقم واپس لیکر غریب عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرینگے۔ انہوں نے کہاکہ میٹروبس پر 70ارب روپے خرچ کرنے کا الزام جھوٹا ہے۔ نجم سیٹھی کو پیپلزپارٹی نے وزیراعلیٰ نامزد کیا تھا ہم نے اس لئے انہیں قبول کیا کہ دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر فیصلے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ان خیالات کا اعادہ کیا کہ نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی پی اینڈ ڈی، محکمہ خزانہ اور ایل ڈی اے کے ریکارڈ سے چھان بین کر لیں اگر 70ارب روپے خرچ ہوئے ہوں تو میں سیاست چھوڑ دوں گا اور اگر 30ارب روپے لگے ہیں تو الزام لگانے والے گھر چلے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) ملک کی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ آزاد ارکان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، دوستوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے اور ان کے مشورے سے فیصلہ ہو گا کہ وزیراعظم کون ہو گا۔ بلوچستان میں دوستوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ امریکی سفیر کی نوازشریف، شہبازشریف سے ملاقات کے حوالے سے سوال پر شہبازشریف نے مسکراتے ہوئے کہاکہ امریکی سفیر پہلے بھی ملاقات کے لئے آتے رہے ہیں۔ اس ملاقات میں پاکستان اور امریکہ تعلقات پر بات چیت ہوئی، ہم نے کہاکہ پاکستان امریکہ سے اچھے تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے، برابری کی بنیاد پر یہ تعلقات مزید بڑھنے چاہئیں، دونوں ملکوں کے تعلقات میں سردمہری بھی آئی تاہم دونوں کے درمیان اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ وہ صوبے میں رہیں یا مرکز میں جائیں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے شبانہ روز محنت کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ میٹرو اب سب سے پہلے کراچی میں آنی چاہئے۔ شہبازشریف نے کہاکہ قومی معاملات پر آئین اور قانون کے مطابق عمل کریں گے، کئی آزاد ارکان نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی ہے، کچھ لوگوں کو ہماری کامیابی ہضم نہیں ہو رہی، خیبر پی کے اور سندھ میں بھی نمائندگی ملی ہے، سندھ میں فنکشنل لیگ کے ساتھ اتحاد ہے۔ مسلم لیگ (ن) پورے ملک میں اکثریتی پارٹی بن کر ابھری ہے، بلوچستان میں دوسری بڑی پارٹی ہے۔شہباز شریف نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ میاں نوازشریف تمام گزری باتوں کو ایک طرف کر کے عمران خان کی عیادت کیلئے گئے۔ ہمارے یہاں سیاست میں میچورٹی ہے، ہم حریف ضرور ہیں لیکن مسلمان بھائی ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ہماری روایت ہے۔ میاں صاحب کی عمران خان سے بات چیت کرنے سے جمود ٹوٹے گا۔ ان کے درجہ¿ حرارت میں تبدیلی آئے گی۔ قوم دیکھ رہی ہے کہ ان کی غربت، محرومی کو خوشیوں میں بدلنے کیلئے، بنیادی سہولیات کی فراہمی، پاکستانی قوم کو باوقار بنانے کیلئے جس لیڈرشپ کو عوام نے منتخب کیا وہ مل کر مسائل حل کرے۔ جو پیغام نوازشریف نے عمران خان سے ملاقات میں دیا وہ تمام سیاسی قوتوں کیلئے ہے۔ پوری دنیا کے رہنماﺅں کے پیغامات کا نچوڑ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو خوشحال ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوست ممالک پوری طرح تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انتخابات شفاف ہوئے ہیں اور عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہے اسے آگے لے کر چلنا چاہئے۔ انرجی بحران بہت گھمبیر مسئلہ ہے۔ اسے تین مراحل میں حل کیا جائے گا۔ شارٹ ٹرم میں بجلی کی چوری بند کر کے جو پیسے وصول ہوں وصول کر کے سسٹم میں ڈال کر بجلی پیدا کی جائے۔ گیس کا فارمولا بنا کر فرٹیلائزر انڈسٹری اور بجلی بنانے کیلئے استعمال کی جائے۔ صوبوں اور اداروں نے واپڈا کے اربوں روپے دینے ہیں وصول کئے جائیں۔ لائن لاز میں کمی کی جائے۔ بجلی بحران کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کریں گے۔ جان لڑائیں گے۔ قوم نے پانچ سال سختی کے گزارے لیکن اب اسے تھوڑا صبر کرنا پڑے گا۔