میاں صاحبان اور عمران خان۔ سب کی نگاہوں میں
عوام کا امتحان ختم ہو تو قیادت کا امتحان شروع ہو جاتا ہے، سو اب وفاقی سطح پر کامیابی کے بعد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا امتحان شروع ہو گیا ہے۔ امتحان کوئی بھی ہو دل کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے۔ خطرے کی حد تک اور پھر یہ امتحان بھی ایسا ہے جس کا دورانیہ پانچ برس کا ہے۔ جس شاخ پر پھول پھل لگیں اور زمین کا جو حصہ راستے کی شکل اختیار کر لے وہ سب کی نظروں کا نشانہ ہوتا ہے۔ مسلم لیگی قیادت اس وقت نشانہ ہے، ان پر نظریں ہیں بے چین ووٹروں کی۔ تیز دھار میڈیا کی، بااختیار عدالتوں کی اور سب سے زیادہ زخمی اپوزیشن کی۔ اب اقتدار ستر اسی کی دہائی والا نہیں کہ ”جدھر دیکھو موجاں ای موجاں“ صبح اسلام آباد، شام کو ریس کورس کے دامن میں کرکٹ، اب تو اقتدار آگ کا دریا پار کرنے والی بات ہے۔ دہشت گردی، دم توڑتی سرمایہ کاری، بے روزگاری، امن و امان کا فقدان، صحت اور تعلیم کے شعبے میں بے چینی، مہنگائی، ام الخبائث لوڈشیڈنگ، غرض کیسے کیسے کانٹے راستے میں ہیں جنہیں پلکوں سے چن چن کر آگے بڑھنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے حوصلہ کا باعث بننے والے کئی پہلو بھی ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں کے حصے میں آنے والا پیسہ تو بہت ہے لیکن پہلے صوبے میں حکومت ہونے کے باعث وفاق میں مخالف حکمرانوں سے پیسہ ملا اور خرچ ہوا اور اب تو وفاق اور پنجاب میں میاں صاحب کی اپنی حکومت ہو گی۔ گویا کوئی بلیک میلنگ، کوئی دباﺅ نہیں ہو گا۔ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ کم از کم وفاق اور پنجاب میں ایک ہی جماعت (خواہ وہ کوئی بھی ہو) کی حکومت ہو تو پاکستان کے آدھے مسائل تو ازخود حل ہو جاتے ہیں۔ باقی آدھے مسئلوں میں معاشی استحکام اور اس استحکام کے شہسوار کی بنیادی ضرورت انرجی سرفہرست ہے جس سے خوشحالی، بے روزگاری کا خاتمہ اور گھروں کی رونق جڑی ہوئی ہے۔ میاں صاحبان کا تجرباتی پس منظر صنعت و تجارت کا ہے اس لئے ان کے جادو کی چھڑی کام دکھا سکتی ہے مگر یہ چھڑی بھی تب کام کرے گی جب سولر انرجی کے لئے عام پبلک کی حد تک سبسڈی کا کوئی منصوبہ بنے گا۔ ایران اور چین کے ساتھ ہونے والے گیس پائپ لائن اور گوادر کی بندرگار کے معاہدوں کو آگے بڑھایا جائے گا۔ بھارت سے ”جن جپھا“ ڈالنے سے پہلے اپنے دریاﺅں کے پانی اور کشمیر کی ارض ارغوانی کے لئے کوئی نظر آنے والی گارنٹی لی جائے گی۔ کالاباغ ڈیم جیسے منصوبوں پر شیروں کی طرح دلیرانہ موقف اپنایا جائے گا اور اندرون ملک بم دھماکہ فری ماحول کی بحالی، ہسپتالوں میں مفت علاج، ڈاکٹروں کے تحفظ، تعلیم کی یکسانی کا مسئلہ چلانے کا عملی مظاہرہ ہو گا۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ ایک خاص بات جو توجہ طلب ہے کہ ان پانچ سالوں میں میاں صاحبان کا اصل مقابلہ پی پی پی کی بجائے نئی ابھرتی قوت تحریک انصاف سے رہے گا۔ عمران خان سے رہے گا جو روایتی تھانہ کچہری کی سیاست والے نہیں لگتے۔ ان کی طرف سے پوری انتخابی مہم میں نئی قوم کا نعرہ دیا گیا جو چوری (بجلی، ٹیکس، پانی وغیرہ) کی عادی نہ ہو، بھیک مانگنے کی عادی نہ ہو۔ (بھیک شہر کے چوراہوں سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک، ملکی اور غیر ملکی بنکوں سے مانگنا ایک جیسا ہے) جو امریکہ سمیت کسی بھی غیر ملکی طاقت کے عطیات کی آس میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہ بیٹھے۔ خود محنت کرے، میاں صاحبان بھی ماض میں ایسا ہی نعرہ لگاتے رہے ہیں۔ ”قرض اتارو ملک سنوارو“ کا نعرہ اب سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ قوم تو ہم تب بنیں گے جب انہی فصلوں، اپنی کانوں کی معدنیات اور دریاﺅں کے پانی پر انحصار کریں گے۔ تیسری بار وزیراعظم کا منصب سنبھالنے والے خوش قسمت میاں نواز شریف کے لئے سب سے بڑا چیلنج تحریک انصاف کے یہ نعرے ہیں۔ میاں صاحب کا تین گھنٹوں کی بجائے پانچ برس تک جاری رہنے والا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ بھارت سے اپنے حصے کا پانی واپس لینا، کشمیر کے مسئلہ کا حل 1999ءکی سطح سے آگے لانا، پاکستان میں فرقہ واریت، لسانیت کا خاتمہ یہ سب سوالات ان کے سامنے ہیں۔ کیا وہ ان سوالات کا سامنا کرکے اہل پاکستان کو ایک پاکستانی قوم میں ڈھالنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ کیا میڈیا کی تنقید، احتساب کی چھاننی کو موثر انداز میں کام کرنے کے لئے فضا فراہم کرتے رہیں گے؟ میاں صاحب نے صوبہ پنجاب میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان بدلنے کا چانس اپنے نام کیا ہے۔ پانچ برس کے بعد عمران خان صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ایک بار پھر ان کے سامنے ہوں گے۔ 11 مئی 2013ءکو شروع ہونے والا مقابلہ 2018ءمیں ختم ہو گا۔ عوام کا امتحان ختم ہو چکا ہے۔ اب قیادت کا امتحان ہے دلوں کی دھڑکن تیز ہے۔ خطرے کی حد تک۔ جن شاخوں پر پھل پھول ہوتے ہیں اور زمین کا جو حصہ راستہ بن جاتا ہے وہ سب کی نگاہوں میں ہوتا ہے۔ خبردار کہ اب میاں صاحبان اور عمران خان سب کی نگاہوں میں ہیں۔