میاں نواز شریف کےلئے درپیش چیلنجز
حالیہ الیکشن کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) وفاق میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے اسکے نتائج کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی دوسری پارٹی کی حمایت کے بغیر بھی مرکزمیں حکومت بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکی ہے اب میاں نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنیں گے میاں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کو جو عوامی مینڈیٹ ملاہے وہ پھولوں کی سیج سے زیادہ ممکنہ طور پر کانٹوں کا بستر بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ واضح مینڈیٹ اپنے جلو میں کئی قسم کے چیلنجز بھی ساتھ لاتا ہے اور لیگ (ن ) کی قیادت کو ایک ایسے امتحان سے گزرنا پڑ سکتا ہے جو قومی معاملات پرمسائل کاپل صراط بن کر اسکے سامنے کھڑا دکھائی دیتا ہے اور جو ذراسی بے احتیاطی سے مزید مشکلات کو جنم دے سکتا ہے ۔ نئی وفاقی حکومت کو جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکاہے اگرچہ حکومت سازی کےلئے کسی سہارے کی ضرورت شاید نہ پڑے ہم پھر بھی سب سے بڑا چیلنج بلوچستان کا مسئلہ ہے اور جس طرح گزشتہ چند برس کے دوران وہاں کی قوم پرست قوتوں اور خصوصاًنوجوان نسل کے اندر شدت پسندانہ جذبات پیدا ہوئے اور حکومت کی بلوچستان پالیسی کے حوالے سے شاکی ہیں انہیں ایک بار پھر قومی دھارے میں لانے کےلئے ان کے اندر اعتماد کی بحالی کےلئے ایسے اقدامات کرنا لازمی ہوں گے جن سے ان کی ناراضی دور ہو اور وہ موجودہ روش کو ترک کرکے اپنے روئےے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو سکیں۔اس ضمن میں خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ موجود انتخابات میں کئی قوم پرست جماعتوں کے رہنماﺅں نے سابقہ انتخابی بائیکاٹ کا رویہ ترک کرتے ہوئے انتخابی عمل میں شرکت کی ہے ۔ دوسرا مسئلہ جسے ام المسائل کہا جا ئے تو بے جانہ ہوگا کیونکہ اس ایک مسئلے کی جڑدیگر مختلف النوع مسائل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور وہ مسئلہ توانائی کے بحران کا ہے۔ سابقہ حکومت کے کردار پر اس حوالے سے کوئی منفی تبصر ہ کئے بغیر ہم یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان اہم مسائل میں توانائی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے ڈانڈے صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں ، بے روزگاری وغیرہ میں جا کر پیوست دکھائی دیتے ہیں ۔ لوڈ شیڈنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی موجودگی میں عام لوگ تو کسی بھی حکومت کے اقدامات سے خواہ وہ عوام کے مفادات کےلئے کتنے بھی اہم کیوں نہ ہوں مطمئن نہیں ہوتے جبکہ صنعتوں اور تجارتی شعبوں کو بجلی اور گیس کی عدم فراہمی سے گزشتہ کئی برس سے ان شعبوں کی بربادی کے قصے کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہیں جس سے بے رو زگاری اور غربت میںاضافہ سے ملکی ترقی جس بری طرح متاثر ہورہی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس سلسلے میں جہاںبڑے ڈیمز کی تعمیر کےلئے اتفاق رائے کیلئے اقدام ناگزیر ہیں وہاں نہ صرف تھرکول منصوبے کو بروئے کار لانا ضروری ہے بلکہ صوبہ خیبر پختو نخوا کے مختلف مقامات پر پانی کے چھوٹے منابع پر ٹربائن لگا کر بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر بھر پور توجہ دینا ہوگی اور سابقہ حکومت نے جو منصوبے شروع کر رکھے ہیں ان کے فنڈز کی فراہمی یقینی بنا کر اس مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے ۔اسی طرح سولر انرجی کے ذریعے بھی بجلی پیداکرنے کے منصوبوں کو بروئے کار لانا پڑیگا تاکہ اس ام المسائل کو حل کرکے کئی ایک ضمنی مسائل کو حل کرنے کی سبیل نکالی جائے۔اس ضمن میں ظاہر ہے بیرونی سرمایہ کاری پربھی بھرپور توجہ دینی ہوگی ۔ یہاں قابل ذکرامر یہ ہے کہ تحریک طالبان نے سابقہ حکومت کے آخری ایام میں مذاکرات کی کامیابی کےلئے نواز لیگ ، جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام کو بطور ضامن سامنے آنے کی شرط عائد کی تھی چونکہ اب یہ تینوں جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اس لئے اب ان کےلئے امن مذکرات کو آگے بڑھانے زیادہ مشکل پیش نہیں آنی چاہئے۔ بے روزگاری اور مہنگائی سے عوام بد حال ہیں ۔ دہشتگردی پورے ملک میں پھیل چکی ہے امن و امان کے مسائل ہیں بیرونی واندرونی قرضہ جات کی ادائیگی کا مسئلہ درپیش ہے امریکا بھارت و دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اورایک آزاد خود مختار ملک کی حیثیت سے پاکستان کی عزت و وقار کی بحالی جیسے چیلنجز ہیں میاں نواز شریف کی وفاقی حکومت کےلئے ملک بھر میں امن وامان کا قیام جہاں ایک بڑا مسئلہ ہوگا ۔ وہیں خاص طور پر کراچی میں اسے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف کراچی کےلئے کیا منصوبے لیکر آتے ہیں۔میاں نواز شریف کی حکومت کو بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑیگا اور ان چیلنجز سے زبردست نبردآزما ہونا تنہا حکومت کے بس کی بات نہیں ہو گا۔ لہذا ہر جماعت چاہے اس کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے وہ ملکی سلامتی اور ملکی فلاح کےلئے حکومت کا ہر محاذ پر ساتھ دے اور پل بھر میں حکومت سے نتائج کا تقاضا نہ کیا جائے اور حکومت کو جم کر کام کرنے دیا جائے ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جان بوجھ کر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکومت کو نا ن ایشو میں الجھا دیا جاتاہے تاکہ یہ عوامی مسائل کو ڈلیور نہ کر سکے ناکامی سے دو چار ہو اور عوام کی نظروں سے یہ جماعت گر جائے یہ سب اس لئے کیا جاتاہے تا کہ اسکے بعد ہماری حکومت آجائے۔ بہر حال ہم میاں نواز شریف سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ملک وقو م کو بحرانوںں سے نکالنے کا ذریعہ بنیں گے۔