• news

ایاز صادق کیوں جیتا؟

جب میں نے اپنے ممتاز کالم نگار دوستوں عامر خاکوانی‘ اعجاز حفیظ سے کہا کہ این اے 122 کے جائزہ اور ذاتی معلومات کی بنا پر مجھے لگتا ہے عمران خان ہار جائے گا اور ایاز صادق جیت جائے گا تو ان کے چہروں پر بے یقینی کے سائے لہرائے تھے اپنے نوجوان ساتھیوں محبوب احمد‘ تنویر‘ محسن اکرم‘ الیاس گیلانی‘ منصور بخاری‘ بابر شاہ اور دوسروں سے یہ بات کی تو وہ بھی ذہنی طور پر میرا تجزیہ قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آئے ندائے ملت کے نوجوان ایڈیٹر انیس الرحمن سے 11 مئی کی دوپہر بات چیت ہوئی اور عمران خان کی متوقع شکست کی بات کی تو انہوں نے بھی میرے اس تجزیے یا اندازے کی وضاحت کو ضروری سمجھا دراصل ان سب کی نظریں عمران خان کی بھاری بھر کم شخصیت پر تھیں حلقے کی اندرونی صورتحال ان کی نظروں سے اوجھل رہی البتہ میرے صحافی دوست زاہد رفیق بھٹی جن کے ساتھ میں اکثر پریس کلب سے صحافی کالونی جاتا ہوں یہ بیس پچیس سال گڑھی شاہو کے علاقے میں رہے۔ انہوں نے قدرے اتفاق کیا آپ کی بات درست بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اس علاقے میں ایاز صادق کے خاندان کی خدمات بہت ہیں۔ ایاز صادق کی کامیابی کے لئے میرے اندازے کی بنیاد یہ نہیں تھی کہ وہ 2002ءاور 2008ءکے انتخابات میں بھی بھاری اکثریت سے جیت گئے تھے بلکہ اگر کوئی بھی اس حلقہ میں چند عوامل کا جائزہ لے گا اسی نتیجے پر پہنچے گا اول یہ کہ ایاز صادق نے گذشتہ دونوں الیکشن جیت کر ”چرسی یار کس کے دم لگا اور کھسکے“ والا روایتی انداز نہیں اپنایا حلقہ کے لوگوں سے ایک لمحے کے لئے رابطہ منقطع نہیں کیا بلکہ حلقہ کے لوگوں سے ازخود رابطہ کا ذریعہ ان کے باپ دادا کی سماجی خدمات بھی ہیں مثلاً ان کے نیک دل دادا نے اس وقت ایک بڑی ہسپتال ڈسپنسری قائم کی جب لاہور میں قیام پاکستان سے پہلے صرف تین بڑے ہسپتال میو‘ گنگارام اور ریلوے کا کیرن ہسپتال تھے اپنے بزرگوں کی روایت کے مطابق وہ حلقہ کے لوگوں کی غمی خوشی میں شریک ہوتے رہے۔ لوگوں کو ان سے ملنے میں کبھی دشواری پیش نہیں آتی۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے نیت بھی درست ہے اس لئے دس سال مسلسل ایم این اے رہ کر بھی کوئی داغ دھبہ نہیں ہے ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں کوئی تفریق نہیں روا رکھی جس سے ناانصافی اور محرومی کے احساس نے جنم نہیں لیا۔
ذاتی اور خاندانی خدمات کے ساتھ ایاز صادق کی کامیابی کا دوسرا بڑا فیکٹر برادری ازم ہے یہ ایسی حقیقت ہے کہ انکار ممکن نہیں صرف لاہور یا پنجاب نہیں سندھ خیبر پی کے‘ بلوچستان اور آزاد کشمیر میں بھی اس کا سر چڑھ کر بولتا جادو دیکھا جا سکتا ہے اس حلقہ میں بہت بڑی تعداد میں آرائیں اور کمبوہ آباد ہیں آرائیں غالب اکثریت میں ہیں ایاز صادق آرائیں ہیں جبکہ ان کے ساتھ ایم پی اے کی نشست کے امیدوار چودھری اختر رسول کمبوہ ہیں لیکن اتفاق سے ان کے مدمقابل میاں اسلم اقبال بھی آرائیں ہیں جو 2002ءمیں اس صوبائی حلقہ سے (ق) لیگ کے ٹکٹ پر جیتا اور چودھری پرویز الٰہی کی کابینہ میں وزیر بنا نوجوان اور متحرک آدمی ہے اس نے صرف وزارت کے مزے نہیں لوٹے بلکہ سمن آباد اور اردگرد کے علاقوں میں جو کام کرائے پانچ سال بعد بھی لوگوں نے اسے یاد رکھا ہے چنانچہ ایاز صادق کو ووٹ دینے والوں نے بھی اختر رسول کی بجائے میاں اسلم اقبال کو ووٹ دئیے۔ چودھری اختر رسول سپریم کورٹ حملہ کیس میں نااہل ہونے کے بعد 2002ءاور 2008ءکے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے تھے اس کے باوجود وہ میاں نواز شریف کو چھوڑ کر چودھریوں سے جا ملے تھے اگرچہ نواز شریف نے دل بڑا کرکے انہیں ٹکٹ بھی دے دیا تھا مگر شاید حلقے میں (ن) لیگ کے حامیوں نے انہیں قبول نہیں کیا اس لئے حلقہ سے تجدید تعلقات کے لئے انہیں خاصی محنت کرنی پڑے گی بات ایاز صادق کی کامیابی کی ہو رہی تھی ان کی کامیابی کا ایک فیکٹر تحریک انصاف کے سونامی کا ”پورس کا ہاتھی“ ثابت ہونا بھی ہے وہ اس طرح کہ نوجوانوں بالخصوص وہ لڑکے اور لڑکیاں جنہیں عرف عام میں برگر فیملی یا ممی ڈیڈی گروپ کہا جاتا ہے کے ذریعہ تحریک انصاف کے ہلے گلے نے بھی نواز شریف کے ان حامیوں کو بھی متحرک کر دیا جو اس احساس کے تحت کاہلی کا شکار ہو کر گھروں میں محدود ہو جایا کرتے ہیں کہ ”میاں نے تے جت ای جاناں ایں“ تحریک انصاف کا ہلہ گلہ یا سونامی ان کیلئے بھی فکرمندی کا باعث بنی اور وہ بھی گھروں سے نکل پڑے پھر یہ بھی حقیقت سے انکار ہو گا کہ نئے ووٹر بننے والے نوجوانوں نے (ن) لیگ میں کوئی کشش محسوس نہیں کی لاہور کے شہریوں نے ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو شیر کے ماڈل اٹھائے اور (ن) لیگ کے جھنڈے پکڑے موٹر سائیکلوں پر سارا دن اور رات گئے تک نعرے لگاتے دیکھا ہے 11 مئی کو صحافی کالونی‘ ہربنس پورہ سے لاہور پریس کلب کے راستے میں این اے 130 این اے 124 اور این اے 122 کے نواب پورہ سے کوئین میری کالج تک واقع پولنگ سٹینشوں کا گزرتے ہوئے جائزہ لیا تحریک انصاف کے کیمپوں میں دس بارہ سال سے 25 سال تک نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں اور (ن) لیگ کے کیمپوں میں 25 سال سے زائد عمر کے لوگ زیادہ نظر آئے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تحریک انصاف کے کیمپ میں ناپختہ اور (ن) لیگ کے کیمپ میں صرف پختہ عمر کے لوگ تھے۔ ایاز صادق سمیت (ن) لیگ کے امیدواروں کی کامیابی کی ایک وجہ پنجاب حکومت کی وفاقی حکومت کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا تناسب بہت زیادہ ہونا بھی ہے پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت اگر کچھ کارکردگی کر سکتی تو یہ تناسب کم ہو کر (ن) لیگ کو اتنا فائدہ نہ پہنچا سکتا بہرحال یہ جمہوری استحکام کے لئے خوش آئند ہے کہ پیپلز پارٹی نے بڑے دل کے ساتھ اپنی شکست کو تسلیم کیا اور محاذ آرائی سے گریز کیا ہے تحریک انصاف کو بھی سپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن