• news

صدر کے کہنے تک استعفیٰ نہیں دونگا‘ بہت سے عدالتی فیصلے بدنظمی کا باعث بنے: اٹارنی جنرل

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز) اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے، اگرنومنتخب حکومت نے چاہا تو وہ کام جاری رکھیں گے، 31 جولائی کے فیصلے کے بعد ججز میں اختلافات پیدا ہوئے عدلیہ آزاد ہے مگر غیر جانبدار نہیں امید ہے ۔ چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے پہلے عدلیہ کو غیر جانبدار بنائیں گے۔ یہ بھی امید ہے کہ نئی پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے متنازعہ فیصلوں پر نظرثانی کریگی۔ پرویز مشرف کا 3 نومبر کا اقدام غداری نہیں غیر آئینی تھا، بیورو کریسی سے متعلق عدالتی ایکشن پر تحفظات ہیں ، اچھے ججز سوموٹو اور توہین عدالت کا بے دریغ استعمال نہیں کرتے۔ میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ جب تک صدر نہیں کہیں گے وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ آئین کے تحت اٹارنی جنرل کی تعیناتی صدر اور وزیراعظم کے درمیان معاملہ ہے، میں کسی کے بھی استعفیٰ دینے کے خلاف ہوں استعفیٰ دینا اب اپنی انا کی تسکین کی روایت بن گیا ہے، میں نے مشرف کے معاملے میں عدالت کو صلح صفائی کا مشورہ دیا۔ 31 جولائی کے فیصلے کے بعد ججوں میں اختلافات ہوئے انہیں اب آپس میں بغلگیر ہو کر اختلافات ختم کرنے چاہئیں۔ آئین کے منافی فیصلے قانونی طور پر نافذ العمل نہیں ہوتے اگر عدالت چوری کی سزا، سزائے موت سنا دے تو اس کا کیا ردعمل ہو گا؟ مشرف کا تین نومبر کا اقدام اگر غیر آئینی اور ملک سے غداری تھا تو اس سے پہلے کے اقدامات کیا تھے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اکتوبر 1999ءکا اقدام بھی غیر آئینی ہے۔ ججوں کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ کے بہت سے فیصلے ملک میں بدنظمی کا باعث بنے۔ جب تک بدنظمی کا باعث بننے والے فیصلے برقرار ہیں حالات خراب رہیں گے۔ 31 جولائی کے فیصلے پر دوبارہ غور ہونا ضروری ہے تاکہ فیصلے میں قانونی غلطیوں کو دور کیا جا سکے ایسے فیصلوں میں درستگی ملک میں قانونی ہم آہنگی کے لئے ضروری ہے۔ چیئرمین نیب کو صرف صدر ہی ہٹا سکتا ہے، انیتا تراب اور بیورو کریسی کے خلاف توہین عدالت پر تحفظات ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ نگران وزیراعظم کو توہین عدالت کے نوٹس پر تحفظات ہیں۔ مشرف کا 3 نومبر کا اقدام غداری نہیں ماورائے آئین اقدام تھا، اگر ماضی کے اقدامات غداری نہیں تو 3 نومبر کے کیسے ہو گئے؟ 31 جولائی کے فیصلوں سے ججوں میں اختلافات پیدا ہوئے، مجھے پراسیکیوٹر جنرل نیب کو عہدے سے ہٹائے جانے کا دکھ تھا۔ چیئرمین نیب کو صرف وزیراعظم ہی صدر کے مشورے سے ہٹا سکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن