لگاﺅ ٹھپے پاکستان کھپے
حیرت انگیز ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی انتخابی طور پر ختم ہو گئی ہے۔ سیاسی طور پر ابھی نہیں۔ سندھ میں انتخابی طور پر اور سیاسی طور پر سلامت ہے۔ بینظیر بھٹو کے جانے کے بعد سندھی مشتعل ہو کے پاکستان کے خلاف غصے میں آئے تو زرداری صاحب نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔ اب وہاں سے یہ ایس ایم ایس آ رہا ہے۔ لگاﺅ ٹھپے پاکستان کھپے۔ سندھ میں صدر زرداری جیت گئے ہیں اور پیپلز پارٹی؟ پاکستان میں پارٹیاں اس طرح کے حالات کا شکار ہوئیں۔ کہا گیا کہ اب کے پیپلز پارٹی گئی مگر وہ پھر آ گئی جو اس بار ہوا وہ پہلی بار ہوا کہ پیپلز پارٹی واقعی ہار گئی ہے پورے پنجاب میں صرف ایک نشست ملی۔ مگر چوہدری پرویز الٰہی پیپلز پارٹی میں ڈپٹی وزیراعظم تھے وہ جیت گئے مگر پیپلز پارٹی کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بری طرح ہار گئے۔ چوہدری صاحب گجرات میں بجلی و پانی کے وزیر احمد مختار کو ہرا کے جیتے۔ راجہ پرویز اشرف بھی پہلے بجلی و پانی کے وزیر تھے۔ شہباز شریف احتیاط کریں بجلی و پانی کے وزیر نہ بنیں۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہی ٹھیک ہیں صرف یہ احتیاط کریں کہ چوہدری نثار سے ہشیار رہیں۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب بننا چاہتے ہیں اور ایم پی اے بھی بن چکے ہیں جبکہ اس کی ضرورت نہ تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دیں۔ نواز شریف نے انہیں سینئر وزیر بنانے کا اعلان کر دیا ہے وہ ڈپٹی وزیراعظم بننے کا مطالبہ یا مظاہرہ کریں گے۔
میں یہ کس طرف نکل گیا ہوں۔ بے چارہ منظور وٹو بھی گیا۔ شکر ہے کہ بشریٰ اعتزاز کی بجائے شکست کی ذمہ داری اعتزاز احسن نے قبول کر لی ہے۔ یہ ہے بھی ٹھیک کہ بشریٰ نہیں ہاری اعتزاز ہار گیا ہے۔ وہ صرف ناکام نہیں بدنام بھی ہوتے ہیں وکیل کے لیڈر کے طور پر عزت پائی مگر عزت انہیں کبھی راس نہیں آئی۔ سنیٹر بن کے ایک بھی شفاف مبارکباد ان کے حصے میں نہ آئی۔ اس موقع پر وہ سینٹری انسپکٹر یاد آ گیا جس کے ہاتھ میں جھاڑو ہے مگر صفائی کا خیال نہیں رکھتا، صرف صفایا کرنے میں یقین رکھتا ہے۔ ایک معتبر خاتون نئے زمانوں کی آنکھ میں پرانے دنوں کی جھلکیاں دیکھ لینے والی سامعہ خان کمپلیکس فری انداز میں خوشگوار باتیں کرنے والی کمپیئر جگن سے صبح کے پروگرام کے بعد کہہ رہی تھی کہ میں نے اعتزاز احسن سے کہا تھا کہ آپ حکومت سے دور رہیں۔ پیپلز پارٹی سے رابطہ رکھیں مگر پارٹی کی حکومت سے مربوط نہ ہوں۔ وہ نہ مانے اور نتیجہ سامنے ہے بلکہ انجام سامنے ہے۔ مجھے تو افسوس بشریٰ جی کا ہے۔ وہ پڑھی لکھی ہیں۔ پروفیسر ہیں مگر اعتزاز احسن کی اہلیہ ہیں۔ ایسی اہلیہ کے لئے میں نے کہا کہ یہ اہل ہے اہلیہ سے۔ میں نے ایک کالم میں کہا تھا کہ بشریٰ اپنی انتخابی مہم سے اعتزاز کو دور رکھیں۔ مگر ریٹرننگ افسر کے سامنے اعتزاز نے کہا کہ میں جورو کا غلام ہوں۔ یہ بات وہ دل پر ہاتھ رکھ کے بشریٰ کے سامنے کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے اکثر سیاستدان جورو کے غلام نہیں ہیں صرف غلام ہیں۔ اعتزاز نے دوسروں کی دیکھا دیکھی نمبر بنانے کی کوشش کی ہے اور سنیٹری سے استعفیٰ دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ن لیگ میں جانے کی تیاریاں ہیں۔ مگر اعتزاز حوصلہ نہیں کرتے۔ مسلم لیگ ن کی حمایت کا انہیں یقین تھا مگر شریف برادران حکمران پہلے ہیں اور سیاستدان بعد میں ہیں۔ وہ غیر مشروط وفاداری مانگتے ہیں۔ اعتزاز پر صدر زرداری نے اعتبار نہ کیا اور نہ شریف برادران نے کیا
خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
استعفیٰ منظور وٹو نے بھی دیا ہے۔ صدر پنجاب پیپلز پارٹی کے طور پر وہ اس طرح بھرپور کام کرتے رہے کہ خود بھی ہار گئے۔ وہ چوہدری برادران سے بھی تعاون کرنے کی بڑھک لگاتے رہے۔ بڑھکیں شہباز شریف کے خلاف بھی لگاتے رہے۔ پیپلز پارٹی میں سب کی کامیابی کا اعلان کرتے رہے اور وہ سب ہار گئے۔ اس الیکشن کے ایک اور نااہل کھڑپینچ وائس چیئرمین یوسف رضا گیلانی بھی مستعفی ہو گئے ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے اور ایک بھائی بھی ہار گیا ہے۔ یہ کیا سیاست ہے کہ پہلے یہ تینوں جیت گئے تھے؟ ملتان اور جنوبی پنجاب بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے گیا۔ اب یہ صوبہ بنے گا تو وزیر اعلیٰ کون ہو گا؟ گیلانی صاحب اپنے کسی بیٹے کو بنوانا چاہتے تھے۔ ایک نجی محفل میں انہوں نے کہا کہ حکومت ہمارے پاس نہیں ہے تو کیا ہوا۔ ہمارے پاس بے تحاشا دولت تو ہے۔ اصل استعفیٰ گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے دیا۔ اس کے بعد دوسروں کو ہمت ہوئی۔ اس پر الگ کالم کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کی تیاری ہو رہی ہے۔ انہوں نے بھی بے حساب دولت لوٹی۔ راجہ سے مہاراجہ بن گئے مگر ایک محاورہ ان کی خدمت میں عرض ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ اندھیر پر غور کریں اور راج پر اور پھر راجہ پرویز اشرف کے لئے سوچیں۔
حیرت ہے کہ ان لوگوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی نہ بچا سکا۔ فرزانہ بھی راجہ ہے۔ فرزانہ راجہ کے لئے تعریف پاکستان کے اندر بھی ہوئی اور پاکستان کے باہر بھی ہوئی۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ ایم این اے بھی بن سکتی ہے یا نہیں۔ اہل خواتین تعریف کی مستحق ہیں۔ ورنہ سمیرا ملک ڈپٹی سپیکر بننے کی تیاری میں ہیں۔ فرزانہ راجہ جیسی خاتون ن لیگ والوں کے پاس ہے وہ ایم این اے بھی ہو گئی ہے۔ ایم پی اے بھی رہی ہے۔ اس کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ مخالف بنچوں سے بھی اس کے مہذب اور پڑھے لکھے انداز کی تعریف کی گئی۔ اس کا نام عارفہ خالد ہے۔ وہ مریم نواز کی بہت معترف اور مداح ہے۔ میں نے پہلے لکھا تھا کہ مریم نواز کو قومی اسمبلی میں آ کے مسلم لیگ ن کے لئے ایک مددگار کا کردار ادا کرنا چاہئے۔
آخر میں یہ عرض ہے کہ پیپلز پارٹی کی ”کارکردگی“ پنجاب میں مکمل شکست کا سبب بنی یہ بہت حد تک ٹھیک بھی ہے۔ تفصیلات ڈاکٹر قیوم سومرو سے پوچھ لیں۔ اس کا ایوان صدر اب بلاول ہاﺅس کراچی ہے۔ سندھ میں اتنے ہی برے حالات تھے مگر وہاں وہی وزراءجیت گئے جو پاکستان کے وزراءسے ”کم“ نہ تھے۔ سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا جیت گئیں۔ ایم کیو ایم کے سارے لوگ جیت گئے جبکہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں تھے۔ وہ اب بھی ساتھ ساتھ ہیں۔ حکومت بھی بنائیں گے اور مجھے یقین ہے کہ حالات اور خیالات یہی رہے تو اگلے اور اگلے سے اگلے الیکشن میں بھی کامیاب ہوں گے۔ پھر کوئی بتائے کہ کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا ہے۔
صدر زرداری کی صلاحیتوں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ان کی دونوں بہنیں فریال تالپور اور ڈاکٹر عذرا افضل کامیاب ہوئی ہیں۔ صدر زرداری کے بعد سب سے اہم حیثیت فریال کی ہے۔ سیاسی کامیابیوں میں ان کا حصہ بھی ہے۔ عذرا افضل کے لئے قاضی حسین احمد کی صاحبزادی سابق ایم این اے سمیحہ راحیل قاضی بہت تعریف کرتی ہیں۔ میں دوبارہ یہ جملہ لکھ رہا ہوں کہ پیپلز پارٹی ہار گئی ہے صدر زرداری جیت گئے ہیں۔ پنجاب کا بلاول ہاﺅس غیر آباد ہو گیا ہے۔ کراچی کا بلاول ہاﺅس زیادہ آباد ہو گیا ہے۔ اس کی اہمیت پہلے بھی اسلام آباد کے ایوان صدر سے زیادہ تھی اب کراچی بلاول ہاﺅس ایوان صدر ہو گا۔ زرداری صاحب صدر نہ رہے تو بھی بلاول ہاﺅس کراچی کی حیثیت گورنر ہاﺅس سے زیادہ ہو گی۔ لگاﺅ ٹھپے کے بعد جو حالات بن رہے ہیں تو پاکستان کھپے کے نعرے کا کیا بنے گا۔