• news

شہباز شریف کی فضل الرحمن کو وفاقی اور بلوچستان حکومت میں شمولیت کی دعوت‘ ملکی مسائل کا حل‘ لیگ ن اور جے یو آئی ف کا ملکر چلنے پر اتفاق

اسلام آباد (وقائع نگار + نوائے وقت نیوز) سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہباز شریف اور جے یو آئی ف کے امیر مولانا فضل الرحمن کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی ہے۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) نے جے یو آئی (ف) کو مرکزی اور بلوچستان حکومت میں شمولیت اور مل کر حکومت بنانے کی باضابطہ دعوت دی ہے جس پر وہ غور کے بعد جواب دیں گے۔ دونوں رہنما¶ں کے درمیان ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے مل کر چلنے پر اتفاق ہوا ہے۔ یہ ملاقات مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب ایم این اے طارق فضل چودھری کے گھر پر ہوئی جس میں حکومت سازی سمیت اہم ملکی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا، ملاقات کے بعد دونوں رہنماﺅں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملکی مسائل کے حل کیلئے وہ مل کر چلیں گے، شہباز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے واضح اکثریت مل گئی ہے، انتخابات کے بعد جو مشکلات سامنے آئی ہیں، ملاقات میں گہرائی کے ساتھ ان کا جائزہ لیا گیا ہے اور فیصلہ کیا گیا کہ تمام معاملات مل کر حل کئے جائینگے تاکہ اٹھارہ کروڑ عوام جنہوں نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے نمائندوں کو منتخب کیا ہے وہ اپنا کردار ادا کر سکیں اور پاکستان کی ہچکولے کھاتی ناﺅ کنارے لگ سکے۔ دونوں رہنماﺅں نے آئندہ ملاقات کا سلسلہ جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جے یو آئی (ف) نے مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا ہے جس اچھے جذبے کے ساتھ ہمیں پیش کش کی گئی ہے اس میں مرکزی مجلس عاملہ کی اجازت لی جائیگی اور اس معاملے کو مثبت طریقے سے آگے بڑھایا جائیگا جماعت میں حکومت کو شمولیت سے متعلق مکمل اعتماد میں لیا جائیگا، باہمی مشاورت سے آگے بڑھیں گے، ملک کو بہت سارے چیلنجز درپیش ہیں، خیبر پی کے، بلوچستان میں جو صورتحال ہے عسکریت پسندوں نے ملک کو خون آلودہ کر دیا ہے، ہم نے وہاں امن فراہم کرنا ہے جس کیلئے وفاق اور صوبوں کا ایک ساتھ چلنا ضروری ہے، ہماری یہ سوچ ہے جسے آگے لیکر بڑھیں گے، معاشی لحاظ سے ملک کا دیوالیہ ہو گیا ہے، ادارے تباہ ہو چکے ہیں انہیں بحال کرنا ہے امن کا ماحول فراہم کرنا ہے، ہمیں یہ مقاصد حاصل کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتیں اکثریت کی بنیاد پر بنتی ہیں لیکن چلتی کارکردگی اور تدبر کی بنیاد پر ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں میاں شہباز شریف نے کہا کہ حکومت سازی کیلئے تمام جماعتوں سے رابطے جاری ہیں، مرکز میں اکثریت حاصل ہو گئی ہے، مولانا فضل الرحمن نے درست کہا کہ حکومت اکثریت کی بنیاد پر نہیں بلکہ تدبر اور فراست کی بنیاد پر چلتی ہے، ملکی حالات گھمبیر ہیں، اجتماعی سوچ کے ذریعے انہیں حل کیا جا سکتا ہے، ایک سوال کے جواب میں فضل الرحمن نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتی، یہ جعلی مینڈیٹ ہے، پارٹی میں اس حوالے سے بھی مشاورت جاری ہے، ایک اور سوال پر شہباز شریف نے کہا کہ پنجاب میں عمران خان کے دھاندلی کے الزامات کا جواب وہ خود بہتر جانتے ہیں، نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کی نامزدگی پیپلز پارٹی نے کی تھی جس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ سیاستدانوں پر الزام آئیگا کہ وہ کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتے اس لئے ہم نے نجم سیٹھی کے نام پر اتفاق کیا جس کے بعد انہوں نے ہزاروں لوگوں کو تبدیل کر دیا یہاں تک کہ سپاہی اور چپڑاسی کو بھی بدل دیا گیا تاکہ وہ ایک واضح پیغام دے سکیں کہ پنجاب میں شفاف انتخابات پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اگر اس کے باوجود کوئی الزام لگتا ہے تو وہ سمجھ سے بالاتر ہے، یورپی یونین نے بیان دیا ہے کہ پاکستان میں نوے فیصد انتخابات صاف شفاف ہوئے ہیں، پنجاب کے بعد مقامات پر دھاندلی کی شکایات آئی ہیں، شہباز شریف نے کہا کہ جہاں پر عمران خان جیتے ہیں وہاں دھاندلی نہیں ہوئی جہاں پر ہم جیتے ہیں وہاں پر دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں، الطاف حسین کے بیان سے متعلق سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ الطاف حسین کو پاکستان کے بارے میں ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھا ان کے بیان سے پوری قوم سکتے میں چلی گئی ہے تاہم انہوں نے تردید کی ہے جسے قبول کرنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ خیبر پی کے میں تحریک انصاف اکثریتی جماعت ہے اور جمہوریت کا تقاضا ہے کہ ہمیں انہیں پورا موقع دینا چاہئے تاکہ وہ حکومت بنائیں، صدر زرداری سے ملاقات کے حوالے سے شہباز شریف نے کہا کہ صدر زرداری سے ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تاہم سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو فون کر کے ان کے بیٹے کے اغوا پر ان سے افسوس کا اظہار کیا اور نیک خواہشات کا اظہار کیاتھا ، باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان مل کر حکومت سازی پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) وفاق اور بلوچستان میں مسلم لیگی حکومت میں شامل ہو گی جبکہ صوبہ خیبر پی کے میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت پر واضح کر دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن)، خیبر پی کے میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے گی تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ا س با ت کا عندیہ دیا کہ تحریک انصاف کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے کی جدوجہد جاری رکھے گی۔ مولانا فضل الرحمن کو پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین، خیبر پی کے اسمبلی میں سردار مہتاب احمد خان کو قائد حزب اختلاف بنائے جانے کا امکان ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مرکزی مجلس عاملہ مسلم لیگی قیادت کی جانب سے شراکت اقتدار اور مل کر ساتھ چلنے کی پیشکش کی حتمی منظوری دے گی، دونوں جماعتوں کی قیادت نے ملک کو مسائل سے نکالنے کے لئے وفاق، چاروں صوبوں اور تمام سیاسی جماعتوں سے مل کر آگے بڑھنے پر اتفاق رائے کیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے خیبر پی کے میں حکومت بنانے پر اصرار کیا اور کہا کہ تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دیا تو مستقبل میں ہمیں نقصان ہو گا۔ شہباز شریف نے م¶قف اختیار کیا کہ خیبر پی کے کے عوام نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا ہم بددیانتی نہیں کر سکتے، ہم تمام جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنائیں تو اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ فضل الرحمن نے کہا کہ آپ ساتھ دیں خیبر پی کے میں ہم حکومت بنائیں گے، حالات کا تقاضا ہے کہ خیبر پی کے میں ہماری حکومت ہو، وفاق، پنجاب، بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ فضل الرحمن کے تمام دلائل شہباز شریف کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے واضح الفاظ میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو مانا، شہباز شریف نے کہا کہ تمام جماعتوں کو ملا کر خیبر پی کے میں کمزور حکومت بنائیں، یہ درست نہیں۔ لیگی رہنما¶ں نے کہا کہ تحریک انصاف کو موقع ملنا چاہئے، تحریک انصاف کو حکومت بنانی چاہئے، کارکردگی نہ دکھا سکے تو قوم کو پتہ چل جائے گا، خیبر پی کے میں ہم نے کوشش کی تو عوام میں اچھا پیغام نہیں جائے گا۔ دریں اثناءمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا ملک کو اس وقت جھس سنگین صورتچال او گھمبیر مسائل کا سامنا ہے ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اجتماعی بصیرت اور سوچ کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے، اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل کی رہائش گاہ پر جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگرچہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ان انتخابات میں تاریخی کامیابی ملی ہے اور اسے سادہ اکثریت بھی حاصل ہو چکی ہے لیکن ہماری خواہش ہے کہ ہم موجودہ چیلنجز کے مقابلے کے لئے ان تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں جن کے نمائندے اسمبلی میں موجود ہیں۔ ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ملک کے تمام صوبوں میں نمائندگی حاصل کی ہے اور ہم مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنانے کے علاوہ بلوچستان میں مل کر حکومت بنائیں گے۔ الیکشن میں دھاندلی کے بارے میں عمران خان کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب میں نگران خکومت کے وزیر اعلیٰ نے دوسرے صوبوں کے برعکس ہزاروں کی تعداد میں تبادلے کر کے میرے دور کی انتظامیہ کو چیف سیکرٹری سے لے کر سیکشن افسر تک بدل ڈالا تھا، اگر اس کے باوجود کوئی دھاندلی کا الزام لگاتا ہے تو میں اس پر کیا کہہ سکتا ہوں۔ دوسری طرف یورپی یونین نے بھی یہ بیان دیا ہے کہ انتخابات 90 فیصد درست ہوئے ہیں اور اس میں جن 10 فیصد حلقوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ پنجاب کے علاوہ ہیں۔ کراچی کی علیحدگی کے بارے میں الطاف حسین کے مبینہ بیان کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کاش لاطاف حسین یہ بیان نہ دیتے، یہ بیان سن کر پوری قوم سکتہ میں آ گئی تھی لیکن اب انہوں نے خود ہی اس بیان کی تردید کر دی ہے۔ شہباز شریف کی زیر صدارت مسلم لیگ (ن) خیبر پی کے رہنما¶ں کا مشاورتی اجلاس ہوا، خیبر پی کے میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے متعلق نوازشریف کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔ 

ای پیپر-دی نیشن