عمران خان کے میانوالی کا کیا بنے گا؟
عمران خان نے میانوالی اور پشاور کی نشست چھوڑ دی ہے۔ مجھے دکھ ہوا۔ میانوالی میرا شہر ہے۔ پٹھان تو میں ہوں مگر پنجابی پٹھان ہوں۔ پٹھان اور مسلمان ہونا ایک بات ہے اور ہم لوگ پکے پاکستانی ہیں۔ میانوالی کے لوگوں نے مولانا عبدالستار خان نیازی سے عشق کیا اور یہ عشق رسول کی وجہ سے تھا۔ یہ جملہ میرے دل میں آ گیا ہے ہم مسلمان ہیں کہ ہم عاشق رسول ہیں۔ پاکستان کو قریہ عشق محمد کہتا ہوں۔ یہ ملک ہمیں اسلام کے نام پر او رمحمد اور محمدالرسول اللہ سے محبت کے صلے میں اللہ نے بخشا ہے۔ یہ ملک قائم رہنے کے لئے بنا ہے بلکہ دنیا میں ناموس رسالت کے نظام کو قائم کرنے کے لئے بنا ہے۔ یہ ہو گا، کب ہو گا اور کیسے ہو گا میں نہیں جانتا۔ مگر میرے بابا جی بابا جی عرفان الحق نے فرمایا کہ یہ سب کچھ فتح مکہ کی طرح ہو گا۔ سب کچھ بغیر لڑے ہو جائے گا۔ اس سے بڑی بڑائی کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں کہ لڑے بغیر رسول اکرم نے اپنا مقصد پا لیا تھا۔ اب پھر ایسا ہو گا۔ غزوہ ہند اسی خطہ میں ہو گی اور غزوہ وہ لڑائی ہے جس میں حضور بذات خود شرکت کرتے ہیں۔ حضور نے میرے اس خطے کی طرف انگشت شہادت کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اس طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے مولانا نیازی نے تو کبھی میانوالی کے سوا کسی دوسری جگہ سے الیکشن ہی نہ لڑا تھا۔ ان کی برسی میں میں شریک نہ ہو سکا تھا۔ مجید نظامی نے فرمایا کہ آج مجھے وہ پگڑی نہیں دکھائی دی جو اجمل نیازی نے مولانا نیازی کی یاد میں پہنی ہوتی ہے۔ کیا عمران خان کو میانوالی کے غریب و غیور لوگوں پہ شک تھا جب پورے پاکستان میں ایک سیٹ تحریک انصاف کو ملی تھی تو یہ میانوالی والوں کی محبت کا تحفہ عمران خان کے لئے تھا۔ اب وہ پشاور اور راولپنڈی سے بھی جیت گیا ہے اور لاہور سے ہار گیا ہے۔ یہاں ایاز صادق کی جیت اپنے علاقے میں ان کی مقبولیت کی نشانی ہے۔ انہوں نے یہاں ریکارڈ کام کرائے اور لوگوں کو عزت دی۔ مجھے لگا کہ واقعی ہار گیا ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ ہر آدمی صرف ایک سیٹ سے الیکشن کے لئے کھڑا ہو۔ وہ ایک جگہ سے جیتے دوسری جگہ ہار جائے تو یہ کام ہی مشکوک ہے۔ یہ فضول خرچی بھی ہے۔ اب ضمنی الیکشن ہوں گے۔ اور بالعموم وہ لوگ ہی جیتیں گے جو حکومت کے امیدوار ہوں گے۔ اس خطرے کے پیش نظر عمران نے پنڈی والی سیٹ نہیں چھوڑی۔ پشاور میں اس کی اپنی حکومت ہو گی اور میانوالی اس کا اپنا شہر ہے۔ پنڈی پنجاب حکومت کا شہر ہے۔ یہاں سے جاوید ہاشمی نے بھی سیٹ چھوڑ دی ہے۔ اس نے 2008ءکے الیکشن کے بعد بھی یہ سیٹ چھوڑ دی تھی۔ اور ملتان میں اپنے گھر کی نشست نہیں چھوڑی تھی۔ اس بات پر نواز شریف خفا ہوا تھا۔ اور چودھری نثار نے بہت گڑ بڑ کی تھی۔ وہ بھی دوبارہ گنتی کرانے کے بعد شیر والی سیٹ ہار گیا ہے اور گائے کے نشان والی پنجاب اسمبلی کی سیٹ جیت گیا ہے۔ وہ وزیراعظم پنجاب بننا چاہتا ہے۔ ورنہ صوبائی اسمبلی کے الیکشن کی کیا ضرورت تھی۔ عمران نے اپنے گھر کی نشست چھوڑ کر زیادتی کی ہے۔ زیادتی تو اس نے پشاور کی سیٹ چھوڑ کر بھی کی ہے۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ عمران سے ہارنے والے اے این پی کے غلام احمد بلور نے کہا مجھے عمران کے اس فیصلے سے دکھ ہوا ہے۔ یہ پشاور والوں کی محبت کی توہین ہے۔ پنڈی کے لوگوں کے ساتھ عمران کی کوئی ذاتی نسبت نہیں تھی۔ اب وہاں سے حنیف عباسی کو کون ہرائے گا۔ بلور صاحب کی بیوی نے کہا ہے کہ بلور صاحب کیسے نہ ہارتے کہ ہمارا تو پوتا بھی عمران کا فین ہے۔ ہمہ گیر صلاحیتوں والا میڈیا کا بہت بڑا آدمی برادرم آصف علی پوتا بھی عمران کا فین ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ اس نے ووٹ کس کو دیا ہے۔ پوتا صاحب دھاندلی کے لئے بہت پریشان ہیں۔ میانوالی سے مجھے بہت زیادہ فون آئے ہیں۔ کئی عورتیں اور جوان دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ رفیع اللہ خان نے روکھڑی موڑ سے مجھے کہا کہ آپ عمران خان کو منع کرو کہ وہ میانوالی کی سیٹ نہ چھوڑیں۔ رفیع اللہ خان مجھ سے فون پر جھگڑتا رہا ہے کہ ایک عمران پر تنقید کیوں کرتے ہو۔ میں نے کہا میں نے اس کی تعریف بہت کی ہے۔ حیرت ہے کہ رفیع اللہ خان مجھ سے ہی کہہ رہا تھا کہ میں عمران کو سمجھاﺅں۔ میں کیا بتاﺅں کہ عمران نے میرے ان کالموں کے لئے بھی کچھ تاثر نہیں دیا جو اس کے گرائے جانے کے حوالے سے بڑی محبت سے میں نے لکھے تھے۔ آخر وہ کونسے مسئلے ہیں کہ عمران نواز شریف کے ساتھ مل کر حل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تو شیر کے تکے بنا کے کھانا چاہتا تھا۔ اپنے بلے سے شیر کو پھینٹی لگانا چاہتا تھا۔ ایک بات اس نے اچھی کی کہ نواز شریف سے ملاقات کے دوران میڈیا کے کسی آدمی اور کیمرے کو کمرے کے اندر نہیں آنے دیا۔ میں بہت پہلے سے عمران خان کو کہتا رہا ہوں اور لکھتا رہا ہوں کہ میانوالی کے غریب بے بس لوگوں کے لئے ایک چھوٹا موٹا ہسپتال بناﺅ۔ عمران نے میرے ساتھ وعدہ کر کے بھی یہ سہولت میانوالی کے لوگوں کو نہ دی۔ نمل یونیورسٹی بھی ٹھیک ہے۔ اس کے ثمرات کئی برسوں کے بعد میانوالی کے لوگوں تک پہنچیں گے۔ پشاور میں تحریک انصاف کی حکومت ہو گی تو شاید صوبہ خیبر پختون خواہ کے لوگوں کو فائدہ ہو مگر میانوالی کا کیا بنے گا۔ اور یہ بات بھی ایک مسئلہ بنے گی کہ عمران میانوالی میں کس کو ٹکٹ دیتا ہے؟ یہ بات اتنی آسان نہیں ہو گی کہ انعام اللہ خان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا اور امجد خان کو کو دیا گیا۔ امجد خان نے جیت کر ثابت کر دیا کہ یہ فیصلہ ٹھیک تھا مگر اب کیا ہو گا اور یہ بھی خبر چونکا دینے والی ہے کہ انعام اللہ کا بھائی نجیب اللہ بھکر سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت گیا ہے۔ وہ پہلے بھی ایم پی اے رہ چکا ہے۔