سیاسی تبدیلی شام کے مسئلہ کا بہتر حل ہے : جنرل اسمبلی
نیویارک (نمائندہ خصوصی+ نیوز ایجنسیاں) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے شام میں سیاسی تبدیلی کے حوالے سے قرارداد کی منظوری دی ہے جس میں سیاسی تبدیلی کو مسئلے کا بہتر اور پرامن حل قرار دیا گیا ہے۔ قرارداد میں حکومت کی جانب سے لڑائی میں بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے اور انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کی پامالی پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا گیا فریقین اقتدار کی تبدیلی کے لئے مل کر کام کریں۔ بدھ کو پاس ہونے والے قرارداد میں کہا گیا ہے کہ شام کے ہمسایہ ممالک کی مالی مدد کی جائے جہاں تقریباً 15 لاکھ شامی مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں اور ملک کے اندر نقل مکانی کرنے والے 42 لاکھ سے زیادہ افراد کی حالت زار بھی بہتر بنائے۔ اقوام متحدہ میں شام کی حکومت مخالف قرارداد عرب ممالک کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ قرارداد کی حمایت 107 ممالک نے کی جبکہ 12 ممالک نے اس کی مخالفت کی۔ اقوام متحدہ میں روس کے نائب مستقل نمائندے الیگزینڈر پینکن نے کہا کہ قرارداد کا متن یکطرفہ ہے۔ 58 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس میں مسلح حزب اختلاف کی دہشت گردی سمیت غیرقانونی کارروائی کی تمام ذمہ داری بھی شام کی حکومت کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے جو حقیقت کے برعکس ہے۔ لیکن اقوام متحدہ میں امریکہ کی نمائندہ کا کہنا تھا کہ قرارداد شام کے مسئلے پر امریکہ اور روس کے حالیہ اقدامات سے مطابقت رکھتی ہے۔ قرارداد کی منظوری سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ سیاسی حل ہی شام کے مسئلے کا بہترین حل ہے۔ شام کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات شام کے سیاسی حل کے لئے امریکہ اور روس کی سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ شامی مندوب نے کہا عرب قرارداد پر عمل نہیں کریں گے۔ ادھر شام کا دنیا بھر سے انٹر نیٹ رابطہ منقطع ہو گیا۔آن لائن کے مطابق پاکستان نے عرب ملکوں کی طرف سے شام میں سیاسی تبدیلی کی منتقلی کے حوالے سے پیش کردہ قرارداد کی حمایت کردی ہے جبکہ بھارت نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد کے بارے میں نئی دہلی کے موقف کی وضاحت دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر اشوک کمار مکرجی نے رکن ملکوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کے بارے میں یکطرفہ اقدام سے تنازعہ حل نہیں ہوگا۔ اس سے معاملہ مزید الجھ جائے گا جس کے باعث خطے میں بڑے پیمانے پر عدم استحکام اور تشدد کے واقعات سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شامی نمائندوں کا حق صرف اس گروہ کو حاصل ہے جس کا چناﺅ شام کے عوام کرتے ہیں نہ کہ یہ اسمبلی اور اس حوالے سے بھارت کا موقف پہلے کی طرح واضح ہے۔ ثناءنیوز کے مطابق ووٹنگ میں حصہ نہ لینے والے ممالک میں الجزائر، بنگلہ دیش، پاکستان، برازیل، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، اریٹریا، فیجی، کینیا، لبنان، میانمار، سنگاپور، سوڈان، جنوبی سوڈان اور یوراگوائے وغیرہ شامل تھے۔اس ووٹنگ کے بعد اقوام متحدہ میں حقوق انسانی کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندے Jose Luis Diaz نے کہا کہ شامی حکومت کے خلاف اس مذمتی قرارداد میں متعدد رکن ریاستوں کی جانب سے ووٹ کا حق استعمال نہ کرنا، منقسم جنرل اسمبلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔انہوں نے ووٹ اس لیے نہیں دیا کیوں کہ نہ کہنا بشارالاسد کی کھلم کھلا طرف داری اور شام میں جاری جنگی جرائم سے پردہ پوشی کے مترادف ہوتا۔تاہم انہوں نے کہا کہ اب بھی جنرل اسمبلی کی ایک بھاری اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ شام میں جاری بحران کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ اس قرارداد کی مخالفت میں شام، چین اور روس کے علاوہ بولیویا، بیلاروس، کیوبا، شمالی کوریا، ایکواڈور، ایران، نیکاراگووا، وینیزویلا اور زمبابوے نے ووٹ دیا۔