• news

حکومت سازیاں، لوٹا سازیاں اور چودھری نثار

ایک اچھی خبر ہے کہ بلوچستان میں ن لیگ اور ق لیگ مل کر حکومت بنا رہی ہیں دونوں پارٹیوں کے بلوچی صدر ملے ہیں اور یہ فیصلہ ہوا ہے۔ ہم تو اس خبر کے منتظر ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے صدر نوازشریف اور چودھری شجاعت کب ملیں گے۔ ن لیگ کو وفاق میں اور پنجاب میں کسی کو ساتھ ملانے کی ضرورت نہیں مگر شہباز شریف نے دل کی بات کی ہے کہ ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ جسے پیچھے چلنا آتا ہے وہ آ جائے۔ لوگ دھڑا دھڑ ن لیگ میں آ رہے ہیں۔ لغاری برادران بھی شریف برادران کو جائن کر چکے ہیں۔ بار بار پارٹیاں بدلنے والے سے کسی نے پوچھا کہ یہ تم کیا کرتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں تو پارٹی نہیں بدلتا۔ حکومت بار بار اپنی پارٹی بدل لیتی ہے۔ حکمرانوں نے باریاں مقرر کی ہوئی ہیں۔ لوٹے تو حکمران ہیں۔ سیاستدان بے چارے تو خواہ مخواہ بدنام ہیں۔ اب تو میڈیا بھی ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ہم چپ چاپ لوٹ مار کرتے ہیں۔ میڈیا والوں کا کیا لیتے ہیں۔ انہیں کچھ دیتے ہی ہیں.... ایک سیاستدان ہے جو کئی دفعہ بلکہ ہر دفعہ جیت جاتا تھا اور ہر دفعہ پارٹی بھی بدل لیتا تھا۔ اب تو اسے جیتنے والی پارٹی کا ٹکٹ بھی مل جاتا تھا یہ ”صوفی“ لوگ ہیں۔ انہیں پتہ چل جاتا ہے یا انہیں کوئی بتلا دیتا ہے کہ فلاں پارٹی آ رہی ہے۔ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرلیتے ہیں۔ ایک لڑکی گھر والوں سے کہہ رہی تھی۔ کل ہم میں سے ایک نہیں ہو گا۔ دوسرے دن وہ اغوا ہو گئی۔ گھر والے پریشان تھے کہ لڑکی کی ماں نے کہا کہ وہ بھاگ گئی ہے مگر وہ بڑی اللہ والی تھی۔ ایک دن پہلے کہہ رہی تھی کہ ہم میں سے ایک نہیں ہو گا۔ ایک مستقل لوٹا سیاستدان نے اپنی دکان پر لکھوایا ہوا تھا۔ موجودہ حکومت زندہ باد۔ کسی نے پوچھ لیا کہ اس کا کیا مطلب ہے، اس نے کہا جو بھی حکومت ہو گی وہ موجودہ ہی ہو گی۔ موجودہ حکومت زندہ باد۔ اسے بتلایا گیا کہ صرف یہی کافی ہے۔ حکومت زندہ باد اس نے کہا مگر احتیاط اچھی چیز ہے۔ یہ جو حکمران ہیں بڑے شکی مزاج ہوتے ہیں۔ اور غیر مشروط وفاداری مانگتے ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ بورڈ تو پچھلی حکومت کے زمانے میں بھی لگا ہوا تھا۔
نوازشریف کو بلوچستان کی ق لیگ پر اعتراض نہیں۔ انہیں تحریک انصاف پر بھی اعتراض نہیں کہ عمران بستر علالت پر ہے کوئی بستر استراحت پر ہو تو بھی اعتراض نہیں۔ صرف وہ بستر حکومت پر نہ ہو۔ ق لیگ کے لوٹوں پر مشتمل یونیفکیشن بلاک کے طفیل پنجاب حکومت پانچ سال قائم رہی۔ وہ درمیان میں لٹکتے رہے۔ نہ ق لیگ میں تھے نہ ن لیگ میں تھے۔ کسی میں تو ہمت پیدا ہو گی اور وہ لوٹا لیگ بنا لیں گے۔ اس طرح وہ زیادہ بلیک میلنگ کی پوزیشن میں ہونگے۔ یونیفکیشن بلاک والوں کو نہ وزارت ملی اور نہ آئندہ الیکشن کے لئے ٹکٹ ملا۔
اس بار عجیب بات ہوئی کہ کئی لوگوں نے پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑا اور اپنے ذاتی نشان پر بھی الیکشن لڑا۔ یہ اعزاز چودھری نثار اور شاہ محمود قریشی کو حاصل ہوا کہ وہ پارٹی نشان پر ہار گئے مگر ذاتی نشان پر جیت گئے۔ شاہ محمود نے بلا پکڑا اور آﺅٹ ہو گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ رن آﺅٹ ہوئے۔ آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت گئے۔ ایک دوست کہنے لگا کہ وہ لٹیرے تو بلے کے نشان پر تھے مگر بلا ٹوٹا ہوا تھا البتہ چودھری نثار گائے کے نشان پر پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیت گئے۔ اب وہ اس گائے کا صدقہ کرنا چاہتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ گائے کو بھوکے شیر کے سامنے ڈال دو۔ عمران خان تو بلے سے شیر کی پھینٹی نہ لگا سکے۔ ٹیکسلا سے غلام سرور خان نے بلے کا صحیح استعمال کیا ہے۔ حیرت ہے کہ چودھری نثار کو صوبائی اسمبلی کے لئے الیکشن لڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ سنا ہے کہ وہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف نے یہ تاثر انتخابی مہم میں دیا تھا کہ وہ پانی و بجلی کا وزیر بنیں گے اور چودھری نثار نے اب کہا ہے کہ میں پٹرولیم کی وزارت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
وزارت کے لئے ممبران اس طرح زور لگاتے ہیں جیسے پسند کے تھانے حاصل کرنے کے لئے انسپکٹر پولیس سیاستدانوں کو استعمال کرتے ہیں اور پھر خود استعمال ہوتے ہیں۔ تو اب تو وزارت اعلیٰ کے لئے بھی مقابلہ اور سازش شروع ہو گئی ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ چودھری نثار اب کس کو آرمی چیف بنواتے ہیں۔
رانا ثنااللہ نے فوراً کہہ دیا ہے کہ وزیراعلیٰ کے لئے شہباز شریف کے علاوہ کوئی سجتا ہی نہیں۔ چودھری نثار شریف برادران سے کوئی بدلہ لینا چاہتے ہیں مگر مجبور ہیں۔ البتہ رانا صاحب کا معاملہ خراب ہونے والا ہے۔
جب کلثوم نواز تحریک جمہوریت چلا رہی تھیں ان کی دلیری سے سب بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے آمروں اور ان کے مستقل خوشامدیوں کے چھکے چھڑا دئیے۔ چھکے چھڑانا چھکے مارنے سے اچھا ہے۔ کلثوم نواز کے قافلے میں کئی لوگ تھے جو ساتھ چھوڑ گئے۔ وہ شیر ہونگے مگر شیر دل نہیں تھے۔ وہ دوبارہ قافلے سے آ ملے ہیں۔ آمر کی ٹیم والے بھی ساتھ دینے والوں میں شامل ہیں۔ کلثوم نواز پنڈی آئیں تو مسلم لیگ ن کا کوئی جانثار ان کے قریب نہ پھٹکا۔ چودھری نثار کا بھی کہیں نام و نشان نہ تھا۔ چودھری تنویر کلثوم بی بی کو اپنے گھر لے گئے اور شان و شوکت سے سب پروگرام ہوئے۔ چودھری نثار کو یہ حرکت اچھی نہ لگی۔ چودھری تنویر نے جلاوطنی میں ثابت قدمی دکھائی مگر ہم وطنی کا عذاب بڑا گہرا نکلا۔ چودھری نثار نے ان کے خلاف ناروا زبان ان کے سامنے استعمال کی۔ انہوں نے نوازشریف سے شکایت کی تو جواب ملا کہ برداشت کرو۔ ہم بھی تو برداشت کرتے ہیں۔ پھر جب ٹکٹ کا وقت آیا تو چودھری نثار ڈٹ گئے۔ اس حلقے کو کھلا چھوڑ دیا گیا اور چودھری نثار نے خود گائے کے نشان پر الیکشن لڑا۔ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ بن کر دکھائیں گے۔
جب ہم وطنی اور جلاوطنی میں فرق نہ تھا۔ میں نے یہ خواہش کی تھی کہ کلثوم نواز کو سیاست سے آﺅٹ نہ ہونے دیا جائے کلثوم نواز نے یہ تو کیا ہے کہ اپنی چہیتی اپنی اہل بیٹی مریم نواز کے لئے سیاست میں آنے کی راہ ہموار کر لی ہے۔ اب مریم خود اس راہ کو شانداربنائےںگی۔

ای پیپر-دی نیشن