جے یو آئی ف نے مسلم لیگ ن سے کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ‘ کچھ وزارتیں مانگ لیں
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام میں حکومت سازی کیلئے مذاکرات ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جے یو آئی (ف) نے کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ اور چند وزارتیں مانگی ہیں۔ دونوں جماعتوں نے حکومت سازی کیلئے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ اطلاعات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان وفاقی حکومت میں جمعیت کی شمولیت کے حو الے سے ہونیوالے مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ رہا۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مرکزی حکومت میں شمولیت کی دعوت قبول کر کے کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ، وزارت مذہبی امور سمیت 3 وفاقی وزارتوں اور بلوچستان کی مخلوط حکومت میں سینئر وزیر، کچھ صوبائی وزارتوں کا مطالبہ کیا۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ مشاورت کے بعد جوابدیا جائیگا۔ باخبر ذرائع کے مطابق جمعیت علماءاسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے وفاقی حکومت میں شمولیت کیلئے اپنی شرائط سے آگاہ کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کو 9 مطالبات پیش کئے گئے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کو وفاقی وزیر کے برابر مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وفاق میں نواز شریف سے اتحاد کیلئے شرائط کی تیاری شروع کر دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما راجہ ظفر الحق سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت میں شمولیت کی دعوت ملی ہے، شامل ہونے کا فیصلہ اجلاس میں کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ملک کو درپیش چیلنجزاور مسائل کے حل کیلئے ملکر کام کرنے کو وقت کا تقاضا قرار دیا، مولانا فضل الرحمن نے جمعیت کی حکومت میں شمولیت کے حوالے سے کہا ہے کہ اس کے مقاصد ، پالیسی کا تعین اور شراکت داری کے خدوخال طے کرنا ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوںکا وسیع تر تعاون حاصل کرنا حکومت کیلئے مفید ہوگا۔ جے یو آئی سے مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں 3رکنی وفد نے مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر جمعیت علماءاسلام (ف) کی حکومت میں شمولیت کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کھانے کی دعوت کے دوران شہباز شریف نے جے یو آئی کو حکومت میں شامل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس پر میں نے کہا تھا کہ آپ کی خواہشات جے یوآئی کے مجلس عاملہ تک پہنچائی جائیں گی۔ مسلم لیگی وفد نے شہباز شریف کی دعوت کا اعادہ کیا اور مجلس عاملہ کو بھی اس سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میں شمولیت صرف خواہش کی بنیاد پر نہیں ہو سکتی بلکہ مقاصد، پالیسی کے تعین اور شراکت داری کے خدوخال طے کرنا ہوں گے۔ اگر ملکر چلنے کے معاملہ پر کوئی نتیجہ نکلتا ہے تو پھر اتحاد کو وسعت دینے کی کوشش کریں گے اور اسے صوبوں تک لے جانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ دعوت پہلے ہوتی ہے اور پھر قبول ہوتا ہے، ہمیں دعوت مل گئی ہے قبول کب ہوتا ہے اور رخصتی کب ہوتی اس کا تعین ہونا باقی ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں صرف جے یو آئی نے ہی نہیں مسلم لیگ(ن) نے بھی شمولیت اختیار کی تھی۔ بعد ازاں دونوں جماعتیں حکومت سے الگ ہوگئیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد کے حوالے سے بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ان سے اتحاد کا کوئی ارادہ ہے۔ مرکز میں شمولیت کی دعوت قبول کرنے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق نے کہا کہ جے یو آئی کو بطور جماعت اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی ہے۔ حکومت میں شامل ہونے پر جے یو آئی کی مجلس عاملہ سے بھی ہمارا تبادلہ ہوا اور اس میں جو پیشرفت ہوئی اس سے اپنی قیادت کوآگاہ کریں گے، بات چیت ابتدائی مرحلے میں ہے تاہم پیشرفت مثبت ہو رہی ہے۔ ملک جو مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں ان کے حل کیلئے جتنا وسیع تر تعاون حکومت کو حاصل ہوگا وہ مفید ہوگا۔ فضل الرحمن نے کہا کہ ابھی ابتدائی گفتگو کی ہے شراکت کے خدوخال طے کرنا ہونگے، حتمی فیصلہ مجلس عاملہ کرے گی۔ اقتدار سنجیدہ مسئلہ ہے مذاق نہیں، حکومت میں شمولیت کا فیصلہ مشاورت سے کرینگے۔ تحریک انصاف سے بات ہوئی نہ ان کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں، ڈرون حملے ملکی سلامتی کے خلاف ہیں، ا نکے موجد تحریک انصاف میں ہیں۔ جے یو آئی کے مطابق مرکزی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس مولانا فضل الرحمن کی رہائشگاہ پر ان کی صدارت میں ہوا جس میں ا نتخابات کے نتائج اور ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے رابطوں کے حوالے سے عاملہ کو بریف کیا۔ مولانا محمد امجد خان نے میڈیا کو بتایا کہ پارٹی نے اپنی آئندہ کی حکمت عملی طے کر لی ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی جس کا اعتراف خود الیکشن کمشن نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعتراف کے باوجود چیف الیکشن کمشن کی جانب سے حالیہ انتخابات کو شفاف انتخابات کہنا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ جمعیت علماءاسلام ملک کی موجودہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے، وہ مستقبل کی سیاست انہی حالات کی روشنی میں طے کرے گی۔ حالیہ انتخابات میں دھاندلی نہیں بلکہ پورے ملک میں دھاندلا کیا گیا ہے، قوم کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ اجلاس نے طے کیا کہ مسلم لیگ (ن) سے رابطے جاری رکھے جائیں گے اور مذاکرات کیلئے دونوں جانب سے کمیٹیوں کا اعلان کیا جائیگا۔ جے یو آئی نے اس حوالے سے مولانا عبدالغفور حیدری کو ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) سے رابطے میں رہیں گے، اجلاس میں قرارداد میں کہا گیا کہ الیکشن کمشن ملک میں غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے میں بری طرح ناکام رہا، حالیہ انتخا بات میں اسٹیبلشمنٹ نے کھلم کھلا مداخلت کی ہے، فیصلے ملک کے مستقبل کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک اور قرارداد میں جے یو ا ٓئی کی طرف سے الیکشن لڑنے والوں کو مبارکباد دی گئی۔
اسلام آباد (عترت جعفری) مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ محمد ظفر الحق نے جمعیت علماءاسلام (ف) کے ساتھ گزشتہ روز وفاق اور صوبوں میں تعاون اور مسلم لیگ کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کے بارے میں مذاکرات کی رپورٹ پارٹی سربراہ میاں محمد نواز شریف کو پیش کر دی۔ راجہ محمد ظفر الحق نے پارٹی قائد سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کیا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان گزشتہ روز کے مذاکرات کی ایک کامیابی‘ اکٹھا چلنے پر اتفاق اور بات چیت کو جاری رکھنے پر آمادگی ہے اور مزید مذاکرات کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے درمیان وفاقی اور صوبائی سطح پر کولیشن بنانے کے عمل کو کامیابی سے مکمل کرنے میں ابھی کچھ دن مزید لگیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ان کی پارٹی جلد مختلف ایشوز کے حوالے سے مجوزہ کمیٹیوں کے ناموں کا اعلان کر دے گی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ بلوچستان میں جے یو آئی کے ساتھ اتحاد بنانے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے لئے مشکلات ہوں گی کیونکہ بعض قوم پرست بلوچ جماعتیں جو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہیں جے یو آئی کے ساتھ بیٹھنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔