میانوالی سے ڈاکٹر قدیر الیکشن لڑیں گے اور بلور صاحب
میانوالی کے لئے تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ پشاور کی سیاست میں مجھے سب سے اچھا غلام احمد بلور لگا۔ وہ ہار کر اچھا ہو گیا ہے۔ اللہ کرے وہ ہمیشہ ہارتا ہی رہے۔ اس نے شوکت خانم ہسپتال میں عمران خان کی عیادت کی ہے۔ اس نے عمران خان کی چھوڑی ہوئی سیٹ سے پشاور کے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اسے یہ ڈر نہیں ہے کہ وہ پھر ہار جائے گا۔ لگتا تو یہ ہے کہ اسے اپنے ہارنے کی خوشی ہوئی ہے۔ وہ پھر ہار پائے گا۔ وہ ہار کر جیت گیا ہے۔ اسے مبارکباد دینے کو جی چاہتا ہے۔ شاید وہ بہادر آدمی ہے، اے این پی ہار گئی ہے۔ اسفند یار ولی ہار گیا ہے، وہ جیت گیا ہے۔ نجانے مجھے یہ شعر کیوں یاد آیا ہے جبکہ ریلوے کے وزیر کے طور پر بلور صاحب کچھ اچھی یادیں نہیں چھوڑیں۔ اس کےلئے بھی لوگ صدر زرداری کو ذمہ دار زیادہ سمجھتے ہیں۔ پی آئی اے احتساب بیورو (نیب) بجلی اور گیس تقریباً سب ادارے تباہ کر دیئے گئے۔ عدلیہ (سپریم کورٹ) اور پاک فوج کو بھی برباد کرنے اور بدنام کرنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ہوئی اور ناکامی بھی نہیں ہوئی۔ (اس جملے کی سمجھ کسی کو نہیں آئی تو میرا قصور کیا ہے؟) اب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اورآرمی چیف جنرل کیانی سے پوچھ لیں) میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں۔ بلور صاحب کم از کم اسفند یار ولی جیسے تو بالکل نہیں۔ بلور صاحب نے بھائی کے قتل پر گھر میں رہے! اور اسفندیار ولی دھماکے کی دھمکی سے ڈر گئے اور اسلام آباد میں چھپ گئے۔
بہر ہال غلام احمد بلور بھی کوئی پسندیدہ آدمی نہ تھے مگر انہوں نے غصے سے نڈھال عشق رسول میں بے حال لوگوں کو حیران کر دیا کہ گستاخ رسول کو قتل کرنے پر کئی کروڑ ڈالر انعام دینے کا اعلان بلور صاحب نے کیا۔ تب کسی کو خیال نہ آیا کہ بلور صاحب کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا۔ لوگ تو سمجھتے ہیں کہ صدر زرداری اور نواز شریف کے پاس ہی پیسے ہیں مگر اب چھپے رستم بہت ہیں۔ سہراب بھی کئی ہونگے۔
اب شکست فاش کھانے کے بعد بلور صاحب نے اپنی ہار کو تسلیم کیا ہے۔ عمران خان کو مبارکباد دی ہے۔ پشاور کےلئے سیٹ چھوڑنے پر عمران خان کے فیصلے پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ضمنی الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا ہے اوراب عمران کی عیادت بھی کی ہے۔ یہ عیادت عبادت ہے ورنہ سیاست ہی سیاست ہے۔ بلور کا بظاہر کوئی مفاد اس میں نہیں ہے۔ ورنہ سیاستدانوں کے ہر عمل میں مفاد ہوتا ہے اور عناد بھی ہوتا ہے مفاد اور عناد کی اصلی تشریح نواز شریف کر سکتے ہیں ویسے سب سیاستدان کر سکتے ہیں۔ پشاور کے لوگ عمران سے خفا ہیں۔ وہاں سے امیدوار مل جائے گا۔ میانوالی کے لئے مشکل پیش آئے گی۔ یہاں امیدوار کوئی نہیں ہے مگر امیدوار بہت نکل آئیں گے۔ یہ فیصلہ فاصلے بڑھائے گا۔ میانوالی کے غریب اور غیور لوگ بہت خفا ہیں۔
میانوالی سے ڈاکٹر قدیر خان انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر حکیم عبدالقیوم خان نے فون پر بتایا ہے کہ میانوالی میں ڈاکٹر قدیر کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑانے کی خبریں گرم ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو میں اس کالم کے ذریعے گزارش کرتا ہوں کہ وہ بلامقابلہ منتخب ہوں۔ وہاں سے تحریک انصاف اور ن لیگ اپنا امیدوار کھڑا نہ کرے۔ میانوالی میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کےلئے یہ ادارہ خود ڈاکٹر قدیر نے 1998ءمیں بنوایا ہے۔ نمل یونیورسٹی کو اپنا کارنامہ عمران خان سمجھتا ہے تو یہ ڈاکٹر قدیر کا کارنامہ ہے فرق یہ ہے کہ عمران نے اپنے کارنامے کی پبلسٹی بہت کی ہے۔
عمران خان اور نواز شریف محسن پاکستان ایٹمی سائنسدان کا احترام کریں۔ میانوالی کے قیوم خان نے بھی تاکید کی ہے۔
ایٹمی دھماکوں کو اپنے لئے اعزاز سمجھنے والے نواز شریف کا فرض ہے کہ وہ یہ کارنامہ بھی کر گزریں۔ لوگ خوش ہو جائیں گے مگر مجھے اندیشہ ہے کہ ایسا نواز شریف کرنا نہیں چاہیں گے۔ وہ ایسا کر بھی نہیں سکیں گے۔ اس کی اجازت امریکہ نہیں دے گا۔ امریکہ کو بھارت کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام کے صدر بننے پر اعتراض نہ تھا مگر پاکستان کے لئے اعتراض ہو گا۔ امریکہ کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی اعتراض ہے۔ گوادر پورٹ کےلئے چین کی عملداری بھی امریکہ کے لئے بہت تکلیف دہ ہے۔ نواز شریف نے بھارت دوستی کےلئے بہت واویلا کیا ہے۔ میں نے چین دوستی کےلئے نواز شریف کو اپنے کالم میں گذارش کی تھی۔ نوازشریف نے چین کےلئے بھی مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اب چین کا وزیر اعظم نواز شریف کے وزیراعظم بننے سے پہلے آ رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور ایوان صدر میں کچھ معاملات پاک چین روابط کےلئے طے ہوں گے۔ وہاں نواز شریف کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ صدر زرداری اور جنرل کیانی بھی اس حوالے سے خبردار رہیں۔
مجھے یقین ہے کہ بلور صاحب کو بھی اس پر اعتراض نہ ہو گا۔ اسے کالا باغ ڈیم پر بھی اعتراض اب نہ ہو گا۔ وہ بھی کالاباغ ڈیم کےلئے جرا¿ت مندانہ اور حقیقت پسندانہ اعلان کرے۔ اب یہ ڈیم بن سکتا ہے۔ صوبہ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف اور مرکز میں ن لیگ نواز شریف اور عمران خان مل کر جو مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں پہلا مسئلہ کالا باغ ڈیم کا ہونا چاہئے اور پھر ڈاکٹر قدیر خان کو صدر پاکستان بنا یا جائے مگر میں چاہتا ہوں کہ صدر زرداری اپنی مدت پوری کریں اور آخری لمحے تک ایوان صدر میں رہیں اب تو وہ ایک تبدیل شدہ صدر پاکستان ہوں گے۔ نواز شریف اور عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگا کے آئے ہیں۔
بیگم نسیم ولی خان نے اپنے سوتیلے بیٹے اسفند یار ولی کو چیلنج کر دیا ہے کہ اسے سیاست کی الف ب نہیں آتی ہے۔ بڑی گہری بات ہے کہ نسیم ولی خان کے بقول اے این پی کو الیکشن کا بائیکاٹ کرنا چاہئے تھا۔ بلور صاحب کے الیکشن ہارنے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے الیکشن لڑا ہے۔ وہ اسفند یار ولی کو چھوڑ کر نسیم ولی خان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ اب اے این پی دو گروپوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ بلور صاحب کا خیال ہے کہ اسے اسفند یار ولی نے ہروایا ہے تو اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ اسفند یار ولی کو کس نے ہروایا ہے۔ نسیم ولی خان کی اس بات میں جواب موجود ہے کہ اسفند یار ولی نے اے این پی کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ غلام احمد بلور کے بھائی مقتول بشیر احمد بلور کو وزیراعلیٰ نہ بنائے جانے پر بھی بلور فیملی خفا ہے۔ بقول ان کے ایک سیاسی لونڈے کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ اسفند یار ولی نے کہا کہ میں نے صوبہ سرحد کو وہ نام دلوایا جس کےلئے میرے دادا اور باپ ناکام رہے۔ یہ تو صدر زرداری اور نواز شریف کا احسان ہے اور اصل احسان امریکہ کا ہے۔ اے این پی پچھلے الیکشن میں جیت کر حکومت میں آئی تھی تو یہ بھی امریکہ کا احسان ہے۔ اب امریکہ نے ان پر کیا ”احسان“ کیا ہے؟