پاکستانیت کی خوشبو
نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کا علمی و ادبی مجلہ میری نظر سے گزرا تو میرا دل اس آرزو سے بھر گیا کہ سارے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے ادبی میگزین ایسے ہی ہونا چاہئیں۔ پاکستانیت کی خوشبو لفظ و خیال کی دنیا میں بکھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جس کا سرچشمہ عشقِ رسول ہے اور یہی ایمان ہے۔ دیکھنے میں پسندیدہ اور پڑھنے میں گرویدہ کرنے والی پوری ادائے دلبرانہ سے لبریز اشاعت۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے دل و دماغ کی مکمل صلاحیتوں کو آزمانے والے طالب علموں کے ہاتھوں میں ایک خوبصورت شاندار اور بامقصد رسالہ ہو تو وہ بے قرار ہونگے اور سرشار بھی ہونگے۔ الحمدللہ رب العالمین اور رحمت اللعالمین کے ذکر سے آغاز پانے والے اس میگزین میں پندرہ عنوانات کے ساتھ ایک سو کے قریب مضامین نظم و نثر شامل ہیں۔ ہر حصے کے شروع میں علامہ اقبالؒ کا شعر درج کیا گیا ہے۔ تابندہ باد کے حصے میں یہ شعر آیا ہے۔
زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر پائندہ تر تابندہ تر نکلے
پہلی تحریر کا نام ”پاک سرزمین شاد باد“ ہے اور اس کی ابتدا میں قومی ترانہ دیا گیا ہے۔ تحریر پر کسی کا نام نہیں۔ یہ سب کی ملکیت تحریر ہے۔ دوسری تحریر کے لئے بھی کسی کا نام درج نہیں۔ لگتا ہے کہ یہ تحریر بھی ایڈیٹر میگزین ”نسٹین“ ممتاز اقبال ملک کی ہو گی۔ میگزین کے اداریے پر بھی کوئی نام نہیں جس کا عنوان بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ ان الفاظ پر غور فرمائیں۔ ”عزیز طلبہ و طالبات سے گذارش ہے کہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی منشا سے قائم ہوا ہے۔ اسی کی قدرت کاملہ اس کی محافظ و دستگیر ہے۔ وہ لمبے عرصے کیلئے پاکستان کو کسی مصیبت آزمائش اور سزا سے دوچار نہیں رکھے گا۔ اپنے ہنر اور تجربے سے پاک سرزمین کو شادباد کر دیں“۔ ممتاز اقبال ملک سے میری رفاقت بہت پرانی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں نے پاکستان کو خطہ¿ عشق محمد کہا ہے۔ اس تحریر کا اختتام بھی اقبالؒ کے شعر پر ہوتا ہے۔
پوری کرے خدائے محمد تری مراد
کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام
اس رسالے میں ایک حصے کا نام سائنس ہے۔ سائنسز اور ٹیکنالوجی کے طلبہ و طالبات کے ذوق و شوق کا سارا سامان سفر موجود ہے۔ اس پورشن کے آغاز کے لئے بھی حضرت علامہ اقبالؒ کا شعر درج ہے۔
دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج
بندے کو عطا کرتے ہیں چشمِ نگراں اور
میں گورنمنٹ کالج لاہور میں معروف اور نمائندہ ادبی میگزین ”راوی“ کا ایڈیٹر رہا ہوں۔ تب گورنمنٹ کالج ایشیا کے چند بہترین تعلیمی اداروں میں سے تھا۔ ”راوی“ کے ساتھ نامور اور بڑے لوگ وابستہ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس کے مقابلے میں کوئی کالج میگزین اور یونیورسٹی کا ادبی مجلہ نہیں آتا۔ میرے مرتب کردہ اقبال نمبر پر تہران کے نشریاتی اداروں نے تبصرے کئے تھے۔ میں نے تعلیم و تدریس کے شعبے میں عمر گزاری ہے۔ اکثر جگہوں پر ادبی مجلوں کا نگران رہا ہوں۔ انہیں ”راوی“ کی روایت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے پہلے پنجاب یونیورسٹی کے ادبی مجلہ ”محور“ کی ادارت سے طالب علم کی حیثیت سے وابستہ رہا ہوں۔ وہاں میرے ساتھ ممتاز اقبال ملک بھی تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہ اشاعت ”راوی“ سے کم نہ تھی۔ اس کی شکل و صورت ملک صاحب نے ایسی ہی بنائی تھی جو آج نسٹ یونیورسٹی کے ادبی مجلے ”نسٹین“ میں نظر آتی ہے۔ گورنمنٹ کالج کے طلبہ و طالبات کو راوین کہا جاتا ہے۔ ممتاز اقبال بھی راوین ہیں۔ ”نسٹین“ بھی اسی روایت کا مظہر ہے۔ اُسے آگے لے جانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بنایا جائے۔ سائنسز اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارے نوجوان اپنی اہلیتوں کو ثابت کر رہے ہیں۔ ان کے دل و دماغ کو پاکستانیت کی خوشبو سے بھر دینا چاہئے۔ وہ کچھ بھی ہو جائیں مگر پاکستانی رہیں۔ اس کے لئے نصاب تعلیم کے علاوہ ادبی مجلے کے ذریعے بڑی آسانی اور آسودگی سے کامیابی ممکن ہے۔ نسٹ کا ادبی میگزین ”نسٹین“ کا یہ شمارہ مثال کے طور پر بڑے فخر سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ کالم اس رسالے کے لئے تبصرے کے طور پر نہیں لکھا جا رہا۔ نوائے وقت نے پاکستان اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی کا حق ادا کیا ہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے ادبی مجلہ ”نسٹین“ کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ دوسرے تعلیمی ادارے بھی اس کی تقلید کریں۔ نسٹ کو نئے علوم بلکہ علوم کے ہجوم حیران کن لیبارٹریز اور پاکستانی ماحول نے وہ مقام دلایا ہے کہ اسے عالمی اداروں کی عالمی رینکنگ میں ایک مقام حاصل ہو گیا ہے۔ گذشتہ دنوں بوسنیا اور مصر کے صدر پاکستان آئے تو انہیں اعزازی ڈگری عطا کرنے کے لئے قائداعظم یونیورسٹی کی بجائے نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کا انتخاب کیا گیا تھا۔ نسٹ کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین آرمی چیف ہوتا ہے۔ یہ بات یونیورسٹی اور آرمی چیف کے لئے اعزاز ہے۔ سیاچن کے برف زاروں میں زندہ دفن ہونے والے بہادر اور جانثار سپاہیوں کے لئے جنرل کیانی نے ان تھک جدوجہد کی اور شہیدوں تک پہنچنے میں فوج کے افسران اور جوان کامیاب ہوئے۔ یہ بے مثال معرکہ آرائی ہے۔ لوکیشن کی نشاندہی نسٹ کے طالب علموں نے کی۔ یہ کسی یونیورسٹی کے لئے فخر کی بات ہے۔ ٹیکنالوجی تو یہ ہے کہ علم و فن میں کمال کے ساتھ یہ بھی کمال ہے کہ ان پاکستانی طلبہ کو شہادت کا رتبہ پانے والے جوانوں کی خوشبو نے روشنی دکھائی۔ مجھے لگتا ہے کہ سائنسدان اور صوفی میں فرق نہیں۔ دریافت اور ایجاد ان دیکھے جہانوں اور زمانوں کے ساتھ رابطے کے بغیر ممکن نہیں۔ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ فزکس (طبیعات)، میٹا فزکس (مابعد الطبیعات) کو ثابت کرتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان کے سائنسدان دنیا بھر کے سائنسدانوں سے یقیناً مختلف اور ممتاز ہوں گے۔ اس میں قابل ذکر بلکہ ناقابل فراموش کردار نسٹ کا بھی ہو گا۔ ہمارا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔
نسٹ میں نایاب کتابیں شائع کرنے کا پروگرام ہے۔ اس حوالے سے نیشنل بُک فاﺅنڈیشن ناکام ہو گئی ہے۔ وہ بھی مقتدرہ اردو زبان جیسا ادارہ بن کر رہ گئی۔ کوئی نتیجہ برسوں بعد برآمد نہیں ہوا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر سول اور فوجی اداروں میں یہ فرق کیوں ہے۔ کالم کے اختتام پر مجھے ایک تحریر کا خاص طور پر ذکر کرتا ہے۔ ”اتنی محبت کوئی کہاں سے لائے“۔ اس مضمون میں ایسی چند حکایتیں اکٹھی کی گئی ہیں۔ جو رسول کریم کے ساتھ بے مثال محبت کی حقیقت سامنے لاتی ہیں۔ ایسی محبت کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ہے۔ ہمیشہ عشق رسول کے حوالے سے ریاض الحسن گیلانی کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔ انہیں ایسے وکیل کی حیثیت حاصل ہے جو ناموس رسالت کے لئے خاص طور پر مقرر کئے گئے ہیں۔
آخر میں مجھے خاص طور پر یونیورسٹی کے ریکٹر لیفٹیننٹ جنرل محمد اصغر کا ذکر کرنا ہے بلکہ ان کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں بہترین ماحول پیدا کرنے کے لئے کام کیا ہے۔ وہ ایک بہترین سپاہی ہیں۔ وہ علمی اور عسکری وابستگیوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ذوق و شوق کے جذبے کے فروغ کے لئے بھی ایک تڑپ رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی کو ایک خاص مقام دلانے کے لئے انہوں نے بہت مثبت کوششیں کی ہیں۔ ”نسٹین“ کی ترتیب و اشاعت میں ان کی رہنمائی اور رفاقت کا بڑا عمل دخل ہے۔
میری خواہش ہے کہ دوسرے تعلیمی اداروں، لائبریریوں میں ادبی مجلہ ”نسٹین“ کی فراہمی ممکن بنائی جائے تاکہ یہ شعور پیدا ہو کہ تعلیمی اداروں میں بامقصد بامعنی ادبی میگزین شائع ہوں۔ طلبہ و طالبات مستفید ہوں اور محظوظ بھی ہوں۔