الطاف حسین کو شیخ مجیب الرحمن نہ بناﺅ
الطاف حسین نے جو کہا حیران کن ہے بلکہ پریشان کن ہے مگر برطانوی ہائی کمشنر کا بیان زیادہ خطرناک ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ الطاف حسین کی بات کو سنجیدگی سے لے۔ برطانیہ پاکستان کے لئے گہری اور سازشی سنجیدگی چھوڑ دے۔
الطاف حسین نے تو جوش خطابت میں کہہ دیا کہ اگر تم کراچی میں ایم کیو ایم کا مینڈیٹ نہیں مانتے ہو تو کراچی کو پاکستان سے الگ کر دو۔ انہوں نے اس کی تردید بھی کر دی۔ یہ بات میں نے خود اپنے کانوں سے سنی ہے۔ اس کی ویڈیو ریکارڈنگ ہمارے ٹی وی چینلز میں موجود ہے۔ تردید کی بجائے وہ کہہ دیتے کہ غصے میں یا جوش میں یہ بات منہ سے نکل گئی تھی۔ غلطی ہو گئی۔ الطاف بھائی کو تو معلوم ہو گا کہ غلط فہمی غلطی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اس کے بعد رضا ہارون نے بالکل تردید کر دی۔ اس طرح کی تردید کرنے میں برادرم فاروق ستار بہت تیز ہیں بلکہ تیز رفتار ہیں۔ یہ سارے بھائی تردید جلدی جلد اور بار بار کرتے ہیں اور یوں کرتے ہیں جیسے تائید کر رہے ہوں۔ ایک بات الطاف بھائی نے کہہ دی ہے۔ چلیں اس طرح کہہ دیں کہ یہ بات ان کے منہ سے نکل گئی ہے۔ یہ کہنا کہ میں نے یہ بات کہی نہیں اور پھر دوسرے بھائی صاحبان کہ تکرار شروع کر دیں تو مناسب نہیں۔ ایک بڑی جماعت کے پارٹی لیڈر کو اچھے لہجے میں بات کرنا چاہئے۔
برطانوی ہائی کمشنر نے ہمیں خبردار رہنے کی بات کر کے ڈرایا ہے۔ عجیب بات ہے کہ الطاف حسین برسوں سے برطانیہ کے شہری ہیں وہ اپنے شہری کےخلاف پاکستان سے کوئی کارروائی کیوں کرانا چاہتے ہیں۔آج عمران خان نے تحریک انصاف کی زہرہ شاہد کے قتل کا ذمے دار برطانیہ کو بھی ٹھہرایا ہے۔ کیا کوئی پاکستان میں بیٹھ کر برطانیہ کے خلاف بات کر سکتا ہے۔ تقسیم ہندوستان کے وقت برطانیہ نے جو سازشیں کیں۔ وہ اب تک جاری ہیں۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی ابتدا برطانیہ نے کی۔ یہ غیر فطری بات تھی کہ ملک کے دونوں حصوں کے درمیان دشمن بھارت کا ایک ہزار کا علاقہ تھا۔ بھارت خود اپنی فوجوں کے ساتھ مشرقی پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ یہ غیر متنازعہ علاقہ تھا مگر کشمیر کے متنازعہ علاقے سے برطانیہ یہ بتائے کہ کشمیر کےلئے اس کا کیا موقف ہے۔ امریکہ تو پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ ہے۔ برطانیہ اس نے پہلے ہی بھارت کے ساتھ ہے۔
کراچی بھی غیر متنازعہ علاقہ ہے۔ اسے متنازعہ اور مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ اسے لہو لہان کیوں کیا جا رہا ہے۔ نجانے کون کون غیر ملکی طاقتیںکراچی میں ملوث ہیں۔ امریکہ تو سامنے ہے بھارت اور برطانیہ اس سے بھی آگے ہیں۔ بلوچستان میں بھارت اور امریکہ متحرک ہیں۔ کراچی میں بھارت اور برطانیہ آگے ہیں جو بھی پاکستان سے بھاگا ، فرار ہوا یا خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی۔ اس نے برطانیہ کا رخ کیا۔ رحمن ملک برطانیہ میں مقیم ہے۔ پاکستان کے لئے فیصلے برطانیہ میں ہوتے ہیں وہ برطانیہ کے لئے کام کرتا ہے کراچی میں اس کا کام زیادہ ہے۔ وہ الطاف بھائی کا بھی بھائی ہے۔ برطانیہ میں پاکستانی سیاستدان اکٹھے ہوتے ہیں۔ میٹنگز کرتے ہیںحتیٰ کہ میثاق جمہوریت بھی برطانیہ میں ہوا تھا۔ یہ پاکستان میں جمہوریت کےلئے ایک مثبت کوشش تھی مگر اسے کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔
شیخ مجیب الرحمن کو پاکستان کا غدار بنا دیا گیا۔ 6نکات بھی باہر سے اس کی ”جھولی“ میں ڈالے گئے جب پاکستانی حکومت نے شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کیا اس کے خلاف مقدمہ چلا تو بنگلہ دیش بنانے کی سازش تقریباً مکمل ہو گئی تھی۔ پھر بھٹو نے شیخ صاحب کو رہا کر دیا اور بنگلہ دیش کو منظور بھی کر لیا۔ اب الطاف حسین کو شیخ مجیب الرحمن بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
بنگلہ دیش کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو پاکستانی فوج نے قتل نہ کیا تھا۔ خود بنگلہ دیش کے فوجی افسران نے یہ کارنامہ کیا۔ صرف حسینہ واجد بچ گئی تھیں۔ انہیں وزیراعظم بھی بنا دیا گیا مگر وہ بھارت کی سازشوں میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ بھارت کو خوف رہتا ہے کہ اس کی سازش خود اس کے خلاف نہ چل جائے۔ اب کراچی میں پٹھان بلوچ پنجابی سندھی اور کئی جماعتیں ہیں۔ سنی اتحاد کونسل بھی ہے۔ کون ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کو آپس میں لڑا رہا ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف کا شاندار جلسہ ہوا تھا تو الطاف حسین نے میرے ساتھ فون پر آدھا گھنٹہ بات کی تھی۔ انہوں نے واضح طور پر نہ کہا تھا مگر تحریک انصاف کے جلسے میں کوئی خرابی ایم کیو ایم نے نہ کی تھی تو اب کیا ہو گیا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم والوں کے علاوہ بھی لوگ رہتے ہیں۔ اب خدانخواستہ کراچی الگ ہوا تو وہ صرف ایم کیو ایم کا تو نہ ہو گا۔ کیا یہ سازش الطاف بھائی کے خلاف ہے؟
ہانگ کانگ کے چین کو مل جانے کے بعد کوئی فری پورٹ انگریزوں، امریکیوں کو چاہئے اب بہت جلدی کچھ ہونے والا ہے ورنہ یہ بہت پرانا منصوبہ ہے۔ دوبئی کی فری پورٹ سے بڑا کام امریکہ ا ور یورپ کراچی فری پورٹ سے لینا چاہتے ہیں۔ فری پورٹ کا 2013ء کے ”فری اینڈ فیئر“ الیکشن سے کیا تعلق ہے؟ مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی الیکشن 1970ءکے بعد پیش آیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ الیکشن بھی ”فری اینڈ فیئر ہوئے تھے؟ کراچی میں تحریک انصاف کو ایم کیو ایم کا مدمقابل کیوں بنایا جا رہا ہے۔
عمران خان کے علاوہ کراچی کی بدلتی بگڑتی صورتحال پر کسی نے کوئی بات نہیں کہی۔ کراچی میں جو ظلم ہو رہا ہے۔ اس کےلئے ایم کیو ایم کہتی ہے کہ طالبان کر رہے ہیں۔ باقی لوگ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی کارروائی ہے۔ جب طالبان نہ تھے تو حکیم سعید ، صلاح الدین اور کئی بڑے آدمیوں کو کس نے قتل کیا۔ مولانا نورانی اور کئی مولاناﺅں پر حملہ کس نے کیا۔ جس کا نام لیا جاتا ہے۔ ان پر ثابت تو کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ایم کیو ایم کے خلاف ایکشن ہوا۔ ری ایکشن بھی ہوا مگر ہر جماعت کے ساتھ وہ حکومت میں رہے۔ حتیٰ کہ نواز شریف کے ساتھ بھی حکمران رہے۔ اب پھر نواز شریف کے ساتھ حکومتی اتحاد کریں گے۔ نیچے صدر زرداری اوپر نواز شریف۔
برطانیہ کی طرف سے 2013ءکے الیکشن میں دھاندلیوں کی بھی تصدیق کر دی گئی ہے۔ دھاندلی کے خلاف دھرنے ہر جماعت دے رہی ہے۔ ایم کیو ایم بھی مظاہرہ کر رہی ہے۔ تو یہ دھاندلی کس نے کی بلکہ کس کس نے کی اور کس نے کروائی بلکہ کس کس نے کروائی۔ عمران خان ہسپتال میں اس طرح لیٹا ہوا ہے جیسے دھرنا دے رہا ہو۔ اب کراچی میں ایم کیو ایم بھی دھرنا دے گی اور تحریک انصاف بھی۔ اے این پی شکست کھا کے شکست خوردہ بھی ہو گئی ہے۔ وہ ایم کیو ایم کے ساتھ ایک ہی حکومت میں تھے اور ایکدوسرے کے ”خلاف“ بھی تھے۔ حیرت ہے ایم کیو ایم حکومت میں تھی اور کراچی میں جیت گئی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی جیت گئی۔ مسلم لیگ ن پنجاب حکومت میں تھی۔ پنجاب میں جیت گئے اور وفاق میں بھی جیت گئے مگر وہ کسی اور صوبے میں اتنا نہیں جیتے۔ کراچی سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی حکومت ہو گی یہ کیا پلاننگ ہے۔ بلوچستان میں نجانے کون حکومت میں تھا اور کون جیتا؟ البتہ صوبہ خیبر پختون خوا میں اے این پی حکومت میں تھی اور ہار گئی۔ یہ بھی کوئی منصوبہ بندی ہے۔ تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخوا میں جیت گئی۔ یہ بات اے این پی کے خلاف ہے یا تحریک انصاف کے خلاف ہے۔
تو میری گزارش ہے کہ الطاف حسین پاکستان کی بات تو کرتے ہیں جاگیرداروں سرمایہ داروں کے خلاف ہیں ۔ عمران کا پروگرام بھی یہی ہے۔ عمران کی جماعت میں جاگیردار اور پرانے پاپی تھوڑے سے ہیں۔ ایم کیو ایم میں ایک بھی نہیں ہے۔ اسمبلیوں میں نچلے طبقے کے لوگ ہیں۔ ممکن ہے کوئی امیر ہو مگر امیروں والی بات ان میں نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ الطاف بھائی سے بات کی جائے۔ پاکستان ان کے بقول ان کے آباﺅ اجداد نے بنایا تھا۔ جنہوں نے مشرقی پاکستان الگ کیا۔ پاکستان انہوں نے خود بنایا تھا۔ وہ پاکستان کے لئے مغربی پاکستانیوں سے زیادہ مخلص اور متحرک تھے۔ الطاف حسین کو شیخ مجیب الرحمن نہ بناﺅ۔ سب کہتے ہیں کہ بات چیت یعنی ڈائیلاگ سچی طرح کیا جاتا تو شاید پاکستان نہ ٹوٹتا۔ ڈائیلاگ اس طرح نہیں ہونا چاہئے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ انہوں نے اندرا گاندھی سے زیادہ اچھی طرح بات کی تھی۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے والوں کے لئے بھٹو صاحب نے میز میدان جنگ میں رکھ لی تھی۔ میری ان سے یہ گزارش ہے کہ کراچی واپس آ جائیں یہاں ایم کیو ایم کے لوگ ہیں۔ تو الطاف بھائی کی جان کو کیا خطرہ ہے۔ عشرت العباد کو خطرہ نہیں فاروق ستار اور رضا ہارون کو نہیں۔ کراچی والے بھائی انہیں بلا رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کریں کہ رحمن ملک کی دوستی چھوڑ دیں اور آ جائیں۔