پاکستان اور چین کو بجلی کے منصوبے آگے بڑھانے چاہئیں : چینی وزیراعظم
اسلام آباد ( نیشن رپورٹر +اے پی پی) چینی وزیراعظم لی کی کیانگ نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ نئی چینی حکومت پاکستان چین مثالی روابط کو نئی بلندیوںسے روشناس کرنے اور باہمی تعاون پر مبنی جامع سٹرٹیجک پارٹنرشپ کو مزید تقویت دینے کےلئے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی پالیسی کی پیروی جاری رکھے گی، پاکستان کے حالیہ دورہ سے دوطرفہ تعاون کو نئی قوت ملے گی، درپیش چیلنجوں سے نبردآزما ہونے اور ترقی کے مشترکہ مقصد کے حصول کےلئے پاکستانی رہنماﺅں کے ساتھ جامع سٹرٹیجک تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال ہو گا اور باہمی تعاون کو مضبوط تر بنانے کا لائحہ عمل وضع کیا جائے گا، دونوں ممالک کو باہمی مواصلاتی رابطے، توانائی، بجلی کی پیداوار اور پاک چین اقتصادی راہداری کے فروغ کے ترجیحی منصوبہ جات کو آگے بڑھانے پر توجہ موکوز کرنی چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے سرکاری دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستانی ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے تحریری انٹرویو میں کیا۔ 27 سال قبل پاکستان کے پہلے دورے کے حوالے سے اپنے تاثرات اور وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے پہلے سرکاری دورے سے توقعات سے متعلق سوال کے جواب میں چینی وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا نام آتے ہی جو لفظ چینی عوام کے ذہن میں آتا ہے وہ ”برادرآہن“ کا ہے، ہمارے لئے پاکستان ہمیشہ لوہے کی طرح ٹھوس اور قابل بھروسہ دوست ہے، چین کے عوام پاکستان کا ”آئرن پاک“ کی حیثیت کا حوالہ دیتے ہیں، یہ دوستی کی مضبوطی کا واضح اظہار ہے۔ چینی وزیراعظم نے 1986ءمیں چینی نوجوانوں کے وفد کے سربراہ کی حیثیت سے پاکستان کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے کے دوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت جہاں بھی گئے وہاں ہمارا پرجوش خیرمقدم کیا گیا اور اس دورے کی خوشگوار یادیں ابھی تک ذہن میں تازہ ہیں جیسا کہ یہ دورہ کل ہی ہوا ہو۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے عوام کے بھرپور خیرسگالی جذ بات کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اب دوبارہ پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، میں پاکستان کو آگے بڑھتا ہوا پاتا ہوں، میں پاکستان، چین دوستی کے فروغ ، تعاون کو مزید مضبوط بنانے اور پھلتے پھولتے دو طرفہ روابط کےلئے لائحہ عمل وضع کرنے کےلئے یہ دورہ کر رہا ہوں، حالیہ برسوں میں پاکستانی عوام نے انتھک کوششوں سے کئی چیلنجوں پر قابو پایا ہے، قومی ترقی میں مسلسل پیشرفت کی ہے ، پاکستان علاقائی اور عالمی امور میں فعال کردار کا حامل ہے اورخطہ کے امن وترقی کےلئے اہم قوت ہے، پاکستانی عوام کے بھرپور جذبہ کوسلام پیش کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کی آئندہ ترقی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ چینی وزیراعظم نے کامیاب انتخابات پر پاکستان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ نئے دور میں پاکستان کے حکومتی اورعوامی رہنماﺅں کے ساتھ جامع سٹرٹیجک تعاون کو مضبوط بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کے منتظر ہیں تاکہ دونوں ممالک درپیش چیلنجز سے بہتر انداز میں نبرد آزما ہوتے ہوئے مشترکہ ترقی کا حصول اورپاک چین تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جا سکیں۔ انہوں نے پاکستان کی حکومت اور عوام کےلئے چین کی حکومت اورعوام کی جانب سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ چین اور پاکستان سٹرٹیجک تعاون کے حوالہ سے سدابہار شراکت دار ہیں اور پاکستان، چین روابط کو اکثر بین الاقوامی میڈیا کی طرف سے خصوصی نوعیت کے تعلقات کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ان تعلقات پر ان کا نقطہ نظر کیا ہے، اس کے جواب میں چینی وزیراعظم نے کہا کہ درحقیقت پاکستان، چین تعلقات خصوصی نوعیت کے ہیں کیونکہ وہ وقتی اور سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں اور ریاستی سطح پر باہمی دوستانہ روابط کی عمدہ مثال ہیں۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ 62 برسوں سے سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے ماﺅزے تنگ، چواین لائی، ذوالفقارعلی بھٹو اور پرانی نسل کے دیگر رہنماﺅں نے پاک چین دوستی کا جو بیج بویا تھا وہ دونوں ممالک کی آنے والی نسلوں کی طرف سے آبیاری کی بدولت بلند و بالا درخت کی صورت پروان چڑھ چکا ہے۔ یہ طوفان و بادو باراں کی پرواہ کئے بغیر مضبوط تر ہورہا ہے اور برگ و بار لا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان چین تعلقات نے وقت گزرنے کے ساتھ نئی جہتیں اختیار کر لی ہیں، جامع سٹرٹیجک تعاون کا فروغ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے اور خطہ میں ترقی و استحکام کے فروغ کا باعث ہے ۔ چینی وزیراعظم نے پاکستانی عوام اور بین الاقوامی برادری سے مخاطب ہوتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ نئی چینی حکومت پاکستان کے ساتھ دوستی کی پالیسی کی پیروی جاری رکھے گی، ہم تعلقات کے فروغ کےلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں گے، دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں مزید عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چین اور پاکستان کو اچھے، قابل اعتماد شراکت دار اور مخلص و قابل بھروسہ بھائی رہنا چاہئے۔ چینی وزیراعظم نے بتایا کہ اپنے دورے کے دوران دونوں ممالک پاک چین جامع سٹرٹیجک تعاون کو گہرا کرنے کے بارے میں مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے۔ دونوں ممالک کی طرف سے مشترکہ ترقی کی جستجو کےلئے شاندار خاکہ وضع کیا جائے گا، ہمیں یقین ہے کہ اس سے پاک چین تعاون کو نئی قوت ملے گی اور پاک چین تعلقات کو نئے نکتہ آغاز سے نئی جست کے ساتھ مزید آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔ قریبی سیاسی تعلقات سے ہم آہنگ دوطرفہ تجارت تعلقات کے فروغ اور اس ضمن میں دورے کے دوران نئے اقدامات اٹھائے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں چینی وزیراعظم نے کہا کہ سیاسی اور اقتصادی تعلقات سائیکل کے دو پہیوں کی طرح ہیں جو ایک دوسرے کو سہارا اور تقویت دیتے ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی بندھن اٹوٹ ہے اور ہمارے کاروباری تعلقات مجموعی طور پر نمو پذیررہے ہیں۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہے جس نے چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ اور کرنسی مبادلہ کا سمجھوتہ کیا ہے اور یہ جنوبی ایشیا میں چینی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ چین پاکستان کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر اور چوتھی بڑی برآمدی منڈی ہے۔ توانائی، بنیادی ڈھانچے، ٹیلی مواصلات اور مالیاتی شعبوں میں نمایاں پیشرفت ہوئی ہے تاہم پاک چین اقتصادی تعاون سے استفادہ کرنے کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ گذشتہ سال پاکستان کی چین کےلئے برآمدات میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ہمارے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ آزادانہ تجارت علاقے کے فریم ورک کے تحت دوسرے مرحلے پر ٹیکس میں کمی پر بات چیت کے حوالے سے مشاورت آگے بڑھائے گا۔ میں نے ہدایات جاری کی ہیں کہ تعاون کے مختلف منصوبہ جات کی پیروی کےلئے چینی تجارتی اور سرمایہ کاری وفد پاکستان بھیجا جائے۔ اپنے دورے کے دوران بھی پاکستانی رہنماﺅں کے ساتھ دو طرفہ کاروباری تعاون کے فروغ کےلئے طویل المیعاد منصوبہ مرتب کرنے پر بات چیت ہو گی۔ دونوں اطراف کو باہمی مواصلاتی رابطے، توانائی اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور پاک چین اقتصادی راہداری کی تشکیل کے فروغ کے ترجیحی شعبہ جات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ چینی وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اورچین بہت بڑی آبادی اور وسیع تر مارکیٹ کے حامل ممالک ہیں، چینی حکومت اپنی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور کاروبارکےلئے حوصلہ افزائی کرتی رہے گی، ہم سنکیانگ میں ترقیاتی منصوبہ جات میں پاکستان کی شرکت کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں، دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے عوام کی بہتری کےلئے باہمی تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے پہلے غیر ملکی دورے کےلئے جنوبی ایشیا کو سب سے پہلے منتخب کرنے اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے چین کی خارجہ پالیسی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے چینی وزیراعظم نے کہا کہ جنوبی ایشیا کا خطہ ایشیا کی ترقی کے فروغ میں اہم ہے، یہ فعال اور صلاحیتوں سے مالا مال خطہ ہے، امن، استحکام اور ترقی خطہ کے ممالک کی مشترکہ جستجو ہے، چین پانچ جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھتا ہے، چین کا مقدراچھے اور برے وقت میں جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ خطہ کے ممالک دوستی اور تعاون کے جذبے کے ساتھ رہیں گے اور جنوبی ایشیاءکو یکجہتی، استحکام، مسرت اور ہم آہنگی کی سرزمین بنائیں گے۔ خطہ کے امن و استحکام ، انسداد دہشت گردی اور جنوبی ایشیا میں ترقی میں پاکستان کے مثبت کردار کا اعتراف کرتے ہوئے چینی وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ بھرپور افہام و تفہیم، اس کے کردارکے اعتراف اور ضروری معاونت فراہم کرنی چاہئے۔ انہوں نے چینی حکومت کی جانب سے پاکستان کو آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ قومی استحکام اور ترقی کے حصول کی اس کی کوششوں میں مسلسل حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا یہی پاک چین جامع سٹرٹیجک تعاون بھی ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ بیرونی دنیا کے بہت سے لوگ چین میں نئی حکومت کی ملکی اور بیرونی پالیسیوںکو بہت دلچسپی سے دیکھتے ہیں وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا جب چین مضبوط تر ہو جائے گا تو بالادستی کےلئے کوشاں ہو گا اور بعض کو تشویش ہے کہ آیا چین شرح نمو برقرار رکھ سکے گا؟ آپ ان دو خدشات کو کیسے دور کریں گے، کا جواب دیتے ہوئے چینی وزیراعظم نے کہا کہ میرے خیال میں یہ خدشات بلاجواز ہیں۔ انہوں نے ایک پرانی چینی کہاوت کا حوالہ دیا کہ ”ایک خاندان کی پرورش کےلئے چاول اور ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی لکڑیوں کا بھاﺅ معلوم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے“۔ ایک ارب 30 کروڑ آبادی کے ایک بڑے ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے مجھے جس چیز کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ایک خاندان کی روزمرہ کی سات ضروریات یعنی ایندھن کےلئے استعمال ہونے والی لکڑی، خوردنی تیل، چاول، نمک، سویاساس، سرکہ اور چائے ہے۔ باالفاظ دیگر مجھے ان ایشوز پر توجہ دینا پڑتی ہے جو عوام کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں، چینی عوام بہتر تعلیم، زیادہ پائیدار روزگار، وسیع تر سماجی تحفظ، رہن سہن کے بہتر حالات اور بھرپور ثقافتی زندگی کے خواہاں ہیں۔ بظاہر ان سادہ چیزوں کا انتظام کرنا آسان نہیں ہے، چین بدستور ایک ترقی پذیر ملک ہے، جدیدیت کا حصول ہمارے لئے ایک کھٹن کام ہے، پرامن ترقی کا حصول محض خارجہ پالیسی کا مقصد نہیں بلکہ اس سے چین کی حقیقت کا بھی تعین ہوتا ہے، جدید تاریخ میں اپنی حصے کی تمام تر مشکلات اٹھتے ہوئے ہم چینی سمجھتے ہیں آپ کو دوسرے کے ساتھ وہ نہیں کرنا چاہئے جو آپ نہیں چاہتے کہ دوسرے بھی آپ کے ساتھ کریں، عالمگیریت کے دور میں باہمی انحصار ریاستی تعلقات کے تعین میں بنیادی خصوصیت ہے، جنگل کا قانون انسانی معاشرہ پر حکمرانی کا طریقہ نہیں، باہمی طور پر مفید تعاون سے ہی دنیا رہنے کےلئے بہتر مقام بنے گی۔ چینی وزیراعظم نے اس امر پر زور دیا کہ پرامن ترقی کی جستجو چینی حکومت کا غیر متزلزل عزم ہے، اسی طرح چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی سربلندی چینی حکومت کا غیر متزلزل عزم ہے۔ یہ دو اصول ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور علاقائی و بین الاقوامی امن و امان برقرار رکھنے کی اقدار سے ہم آہنگ بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ممالک کے درمیان عدم اتفاق اور اختلافات سے گریز ممکن نہیں لیکن یہ بات اہم ہے کس طرح ان سے نمٹا جائے، کوئی ان مسائل کے حوالے سے ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کو شدید کر سکتا ہے یا پھر باہمی احترام پر مبنی مشاورت کے ذریعہ ان سے مناسب طور پر نمٹ سکتا ہے، یہ کسی ملک کی فراخدلی ماپنے کا ایک پیمانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں چینی عوام نے زیادہ بہتر طرز زندگی بسر کرنا شروع کی ہے، ہم اس اچھے وقت پر نازاں ہیں اور دنیا سے زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ ملنے کے خواہاں ہیں، ہم توقع کرتے ہیں کہ دیگر دنیا بھی اسی فراخدلی سے چین کی طرف دیکھے گی، ایک بڑے ترقی پذیرملک کی حیثیت سے چین 21ویں صدی میں امن وخوشحالی کے فروغ کےلئے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ چینی وزیراعظم نے کہا کہ چین کوابھی بھی ترقی کے حصول میں گھمبیر اور پیچیدہ داخلی ماحول درپیش ہے۔ عالمی اقتصادی بحالی کی کمزوری،معاشی تحفظ کے اقدامات، بعض ممالک کی طرف سے پیروی کردہ مالیاتی پالیسی جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ان سے نمٹنے اور دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کےلئے سرگرمی سے کوشاں ہیں، ہمیں چین کی اقتصادی ترقی پر یقین ہے کیونکہ گذشتہ 30 سے زائد برسوں کے دوران اصلاحات اور معیشت کو بیرونی دنیا کےلئے کھولنے کے ذریعہ ٹھوس بنیاد رکھی گئی اور مزید ترقی کےلئے بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین اس پالیسی کی پیروی جاری رکھتے اور صنعتکاری، آئی ٹی کے اطلاق اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ذریعہ نمو کو پائیداربنیاد پر برقرار رکھے گا، اس سے عالمی معیشت کےلئے زیادہ مواقع پیدا ہونگے۔
اسلام آباد (اے پی پی) چین کے وزیراعظم لی کی کیانگ اپنے وفد کے ہمراہ (آج) 22 مئی کو جب دو روزہ سرکاری دورہ پر پاکستان پہنچیں گے تو ان کا انتہائی شاندار استقبال کیا جائے گا۔ ان کے دورہ سے آزمودہ پاک چین تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ چینی وزیراعظم جنہوں نے اس سال مارچ میں اپنا منصب سنبھالا، کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کے دوران دونوں دوست ممالک کی قیادت کثیر الجہتی تعلقات کے افق کو وسعت دینے پر توجہ دے گی وہ یہ دورہ ایسے وقت پر کر رہے ہیں جب پاکستانی قوم نے عام انتخابات میں اپنے نمائندے منتخب کئے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت بن کر ابھری جو آئندہ حکومت بنائے گی۔ چینی وزیراعظم مضبوط باہمی اعتماد، عشروں پرانے تعاون، روایتی تعلقات اور تیزی سے بڑھتے ہوئے سٹریٹجک تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر توجہ دیں گے۔ پاکستانی قیادت اسلام آباد نور خان ائیر بیس پر چین کے وزیراعظم لی کی کیانگ کا پرتپاک استقبال کرے گی جہاں انہیں سلامی اور گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا۔ 21توپوں کی سلامی دی جائے گی۔ معزز مہمان کی آمد پر تمام راستوں کو جہاں سے وہ گزریں گے خوبصورتی سے سجایا گیا ہے جہاں خیرمقدمی بینرز پاکستان اور چین کے صدور اور وزرائے اعظم کے پورٹریٹ لگائے گئے ہیں۔ وہ پاکستان میں قیام کے دوران صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو سے ملاقات کریں گے اور باہمی دلچسپی کے جامع امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ صدر زرداری معزز مہمان کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گے جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو دعوت دی گئی ہے۔ وزیراعظم جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو بھی چینی وزیراعظم کے اعزاز میں ضیافت دیں گے۔ چینی وزیراعظم دورہ کے دوسرے دن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف ان سے ملاقات کریں گے، دونوں ممالک مختلف شعبوں میں قریبی تعاون کیلئے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کریں گے۔ چین کے وزیراعظم 23 مئی کو ایوان بالا (سینٹ) سے بھی خطاب کریں گے اور سینٹ کے چیئرمین اور سپیکر کے ساتھ مشترکہ ملاقات کریں گے۔ بعدازاں وہ پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر کا دورہ کریں گے اور ایک ثقافتی پروگرام دیکھیں گے، وہ شکرپڑیاں میں ایک پودا بھی لگائیں گے۔ بیجنگ میں چین کے نائب وزیرخارجہ سونگ تاﺅ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ چین کے وزیراعظم پاکستان کی سیاسی اور پارلیمنٹ کی قیادت اور فوجی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ وزیراعظم لی کی کیانگ پاک چین تعلقات سے متعلق خطاب بھی کریں گے اور دونوں ممالک کی دوستی کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی شخصیات سے ملاقاتیں کریں گے۔ 62 برس قبل دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد پاک چین تعلقات میں مسلسل استحکام آیا ہے جنہوں نے عالمی سطح پرمختلف چیلنجوں کے باوجود اپنے اقتصادی، دفاعی اور تجارتی شعبوں میں تعاون کی نئی شاہراہوں کو وسعت اور تحفظ دینے کیلئے ٹھوس عزم کا اظہار کیا ہے۔