• news

صدرصاحب کی خود احتسابی

صدر صاحب نے استعفی بھی نہیں دیا اور پارٹی پالیٹیکس بھی شروع کر دی۔ عدلیہ کے احکامات ہوا میںا ڑا دیئے گئے۔
 انہوں نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ استعفی کا صحیح وقت الیکشن اعلان کے ساتھ تھا جب پارٹی کو انتخابی مہم چلانے کی ضرورت تھی، اب وہ ستمبر میں ایوان صدر سے نکلنے کے بعد پارٹی کی کمان سنبھالےںگے اور ان کے دائیں بائیں بلاول، آ صفہ اور بختاور بھی ہوں گے۔باقی کون ہو گا، اس کا کوئی اتا پتہ نہیں ۔ سید قائم علی شاہ اپنی بزرگی کی نسبت سے ضرور ہوں گے اور سید خورشید شاہ بھی جو دور کی کوڑی لائے ہیں کہ پیپلزپارٹی کتوں کو بھی ٹکٹ دے دے تو وہ جیت جائیں گے۔الیکشن میں عام طور پر انسان، انسانوں کو ووٹ دیتے ہیں، کتے نہ کھڑے ہوتے ہیں ، نہ کبھی کسی نے انہیں ووٹ دیا ہے، محاورے کی حد تک یہ تو سنا تھا کہ انیس سو ستر میں بھٹو صاحب نے کھمبوں کا کھڑا کیا اور وہ جیت گئے، اب الیکشن میں کتوں کی باری کیسے آ گئی، قبلہ شاہ صاحب اس پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں۔
پارٹی کی انتخابی شکست اور دھاندلی کی تحقیقات کا فریضہ اعتزاز احسن کو سونپا گیا ہے، بھلے یہ کام تو ہمارے دیرینہ دوست منیر احمد خان کے ذمے لگانا چاہئے تھا جو ہر مرض کی دوا سمجھے جاتے ہیں اور ہر دور میں اپنے لئے نئے سے نیا عہدہ تراش لیتے ہیں۔شکست کا محتسب بھی انہیں ہونا چاہئے تھا تاکہ میاں منظور وٹو کو ریلیف ملنے کی توقع ہو سکتی۔بہر حال اعتزاز احسن کو اپنی بیگم صاحبہ کی شکست کی وجہ معلوم نہیں ، وہ دوسروں کے بارے میں کیا تحقیق کر سکیں گے۔ تحقیقات اور خود احتسابی کا عمل تو اچھا ہے مگر صدر صاحب نے شکست کے اسباب پر خود ہی رائے ظاہر کر دی، تحقیقات کی رپورٹ آنے کا انتظار کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ان کا اولیں نکتہ یہ ہے کہ وہ عالمی سا زش کا شکار ہوئے، ان کی حکومت نے بعض کام ایسے کئے جو عالمی قوتوں کو پسند نہ تھے، چنانچہ انہیں منظر سے ہٹا دیا گیا۔ ایوب خاں نے بھی یہ کہنے میں بڑی دیر کردی تھی کہ اس رزق سے موت اچھی جس سے پرواز میں کوتاہی آ جائے، جناب بھٹو کو بھی بہت تاخیر سے پتہ چلا کہ عالمی شاطر کیا چالیں چل رہے ہیں اور انہوں نے راولپنڈی کے بازار میں امریکی حکومت کا ایک مراسلہ پھاڑ دیا، صدر صاحب نے شکست کی ذمے داری ریٹرننگ افسروں پر بھی ڈالی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے بحران کی وجہ سے لوگوں نے ان کی حکومت کو سزا دی ہے۔اپنے بڑے بڑے لیڈروں کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ایک وزیر اعظم کا بیٹا اغوا کر لیا گیا اور دوسرے وزیر اعظم کو مقدموں میں الجھا دیا گیا۔خود صدر صاحب یا تو سیکورٹی خطرات کی وجہ سے باہر نہیں نکل سکے یا پھر منصب صدارت کی مجبوریاں ان کے راستے میں حائل رہیں۔پارٹی کے ٹکٹ ہولڈروں نے شکوہ کیا کہ گیلانی صاحب نے حمزہ شہباز کو ترقیاتی فنڈ جاری کئے جبکہ انہیں گھاس نہیں ڈالی، راجہ پرویز اشرف کے بارے میں سبھی بیک زبان تھے کہ ان کے نزدیک صرف گوجر خان ہی پاکستان تھا۔صدر صاحب نے اپنی شکست خوردہ ٹیم کو تسلی دی کہ دل نہ چھوڑیں، سندھ میں ہم حکومت بنائیں گے، کشمیر اور گلگت میں پہلے ہی ہماری حکومت ہے ۔ سینیٹ میں دو سال تک ہماری برتری قائم رہے گی۔قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ تصویر کا یہ رخ تو بہت خوش کن ہے اور دنیا امید پہ قائم ہے۔
صدر صاحب نے اگلا صدارتی الیکشن نہ لڑنے کا اعلان بھی کیا ہے۔انہوں نے نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ ہمیں بری طرح ہروایا گیا ہے، اس سے قبل محترمہ کو بھی اٹھارہ سیٹوں تک محدود کر دیا گیا تھا۔یہ بات بالکل ٹھیک ہے، اٹھارہ سیٹوںکے مقابلے میں موجودہ بتیس تینتیس سیٹیں تو دوگنی کے قریب ہیں ، صدر صاحب کی کارکردگی پھر بھی اچھی رہی۔ اب دیکھئے کہ وہ اپنی ان سیٹوں کے ساتھ اس قدر بھر پور اپوزیشن کر سکتے ہیںجو محترمہ نے اٹھارہ سیٹوں کے ساتھ کر کے دکھائی۔یا پھر فرینڈلی اپوزیشن کا کھیل جاری رہے گا۔اصولی اور اخلاقی طور پر فرینڈلی اپوزیشن کی ہی توقع رکھنی چاہئے تاکہ میاں صاحب بھی کھل کر حکومت کر سکیں اور ملک و قوم کو درپیش مسائل کا حل نکال سکیں۔ پی پی پی کے لئے پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ ملا نا آسان نہیں۔دونوں کی پالیسیوں اور سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اس طرح اپوزیشن کی صفیں تقسیم اور بے ترتیب رہیں گی اور اس کا فائدہ وفاقی حکومت کو پہنچے گا۔
صدر صاحب نے اپنے ساتھیوں کی کڑوی کسیلی باتیں سنیں ، انہیں طفل تسلی دی اور یوں چودھری شجاعت حسین کی ڈکشن میں مٹی پاﺅ پر بات ختم ہو گئی۔صدر صاحب کا یہ تجزیہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی کو ختم کرنا ممکن نہیں ۔یہ مر مر کے جی اٹھتی ہے۔اس پارٹی کی نئی زندگی کا انحصار سندھ میں گڈ گورننس پر ہے۔میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اب سندھ میں کارگزاری دکھانا ہو گی، پنجاب میں شہباز میاں نے اپنی کارگزاری پر ووٹ لئے مگر سندھ میں گڑھی خدا بخش کی قبروں کوووٹ پڑے، ایساکب تک ہوتا رہے گا، سندھ کے لوگ بھی آخر توا نسان ہیں ، ان کی بھی ضرورتیں ہیں،انہیں پاپی پیٹ بھی لگا ہے، انہیں لاہور میں میٹرو بس نظر آتی ہے، موٹر وے نظر آتی ہے، دانش اسکول نظرا ٓتے ہیں۔طالب علموں کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ نظر آتے ہیں، سندھ میں اگلی حکومت کو ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھے رہنے کے بجائے کچھ نہ کچھ ڈیلیور کرنا ہو گا، سندھ پاکستان کا گیٹ وے ہے ، کراچی، منی پاکستان کا درجہ رکھتا ہے اور ملکی معیشت کی شہہ رگ کہلاتا ہے۔یہ شہہ رگ پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے،یہ شہر کبھی رنگ و نور کا منببع تھا، روشنیوں سے مالا مال تھا۔پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں اس شہر کا رخ کرتے تھے ، اب پورے ملک میں اس شہر سے لاشیں آتی ہیں۔پیپلز پارٹی اس شہر اور اس صوبے کی تقدیر بدلے گی تو پورے ملک کی تقدیر بدل جائے گی اور پیپلز پارٹی کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔
جناب صدر نے آنے والے دنوں میںلاہور کو اپنی سیاست کا مرکز بنانے کا اعلان کیا ہے، بسم اللہ! وہ بلاول ہاﺅس آباد کریں، ملک کی سیاست کے تین اہم ستون پنجاب میں جمع ہوں گے ، ن لیگ کا مرکز جاتی عمرہ ہے، پی ٹی آئی بھی لاہورمیں زمان پارک کے علاوہ کئی دفاتر آباد کر چکی ہے، جماعت اسلامی کا منصورہ بھی یہیں ہے ۔ زرداری صاحب بھی لاہورمیں رونق افروز ہوں اور اس دور کی یاد تازہ کریں جب بھٹو صاحب نے مال روڈ کے ایک ہوٹل میں اپنی بیٹھک لگائی اور وائی ایم سی اے سے اڑان بھری، اسی لاہور میں بی بی نے انیس سو چھیاسی میں لاکھوں کا جلوس نکالا ۔اب یہیں کہیں میدان سجنا چاہئے۔خود احتسابی سے فارغ ہو کر زرداری صاحب پارٹی کی کمان سنبھالیں اور نواز شریف اور عمران کے مقابل سیاست کریں، یہ اکھاڑہ بہت پر رونق ہوگا، تماشائی کھنچے چلے آئیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن