بھارتی وزیراعظم نہ آیا چینی وزیراعظم آ گیا
چینی وزیراعظم پاکستان آئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے آئے ہیں۔ تقریب میں نواز شریف بھی تھے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ پاکستان آنے سے پہلے بھارت تشریف لے گئے تھے مگر یہ جملہ انہوں نے پاکستان میں کہا ہے ”ہم قابل اعتماد دوست ہیں“۔ بھارت کے لئے یہ جملہ انہوں نے نہیں کہا۔ اس کا مطلب یہ کہ دوست ناقابل اعتماد بھی ہوتے ہیں۔ دشمن پر تو اعتماد کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اعتماد کرنے کی غلطی دوست کے لئے ہی کی جا سکتی ہے اور یہ غلط فہمی غلطی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ ہمیں خطرہ ہمیشہ بھارت سے ہی رہا ہے مگر بھارت دوستی ہماری خارجہ پالیسی کا ضروری حصہ رہی ہے۔ میں نے اہم نہیں کہا کیونکہ اہم اور ضروری میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ میں نے پچھلے کسی کالم میں لکھا تھا کہ محترم نواز شریف نے بھارت دوستی کا بڑی جلد بازی اور بے چینی سے ذکر کیا ہے اور چین بھی ہمارا ہمسایہ ہے۔ اس بے چینی کا چین سے بڑا گہرا تعلق ہے۔
ایک بات اور بھی ہے چینی وزیراعظم نے بہت خوب کہی جو دل کو لگی۔ انہوں نے کہا کہ ”پاکستان خطے کا اہم ترین ملک ہے۔“ جبکہ امریکہ بھارت کو خطے کا لیڈر بنانا چاہتا ہے۔ خطے کا لیڈر اور اہم ترین ملک چین ہے۔ چین سپر پاور ہے۔ امریکہ چین کا مقروض ہے۔ امریکہ چین سے ڈرتا ہے۔ ڈرنے والا دوسروں کو ڈراتا رہتا ہے۔ بھارت خطے کا لیڈر نہیں بن سکتا۔ لیڈر ہونے کے لئے پسندیدہ ہونا ضروری ہے۔ اور کوئی ہمسایہ ملک بھارت کو پسند نہیں کرتا۔ آج کل افغانستان بلکہ مصنوعی افغان صدر کرزئی بھارت کو پسند کرنے کا اعلان کرتا رہتا ہے۔ اسے بھی لگ پتہ جائے گا اور امریکہ بھی پچھتائے گا۔ کیونکہ بھارت پاکستان کی طرح امریکہ کا خلوص کے ساتھ دوست رہا ہے۔ اس دوستی میں قربانیاں بھی دی ہیں۔ مگر امریکہ ہمیشہ بھارت کو ترجیح دیتا ہے۔ پہلے بھارت روس کے ساتھ تھا اور امریکہ کے خلا ف تھا اب روس کے ٹوٹ جانے کے بعد بھارت امریکہ کے ”ساتھ“ ہے۔ امریکہ ٹوٹ جانے کے بعد بھارت کیا کرے گا۔ وہ چین کے ساتھ ہونے کی کوشش کرے گا۔ پھر پاکستان کیا کرے گا۔ پاکستان کو چین دوستی کی عملی قدر کرنا چاہئے۔ چین کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان اس کے لئے کتنا مفید اور ضروری ہے۔
آرمی چیف جنرل کیانی اور صدر زرداری کی ہمت ہے کہ اب کے گوادر پورٹ چین کی نگرانی میں دے دی گئی ہے۔ اس سے پہلے امریکہ کی خوشنودی کے لئے سنگا پور کو دی گئی تھی۔ گوادر پورٹ بنائی بھی چین نے ہے۔ گوادر پورٹ پاکستان کا ایک اثاثہ ہے تو یہ چین کے لئے بھی ایک سرمایہ ہے۔ تجارتی مقاصد کے لئے صدر دروازے کی حیثیت گوادر پورٹ کو حاصل ہے اور عسکری معاملات بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کے لئے امریکہ اور بھارت کو بڑی پریشانی ہے چین بھارت کے لئے کوئی پریشانی نہیں پیدا کرنا چاہتا۔ بھارت کا رابطہ چین کے ساتھ ہے مگر آج تک چین نے بھارت کے لئے دوست ملک کے الفاظ کبھی استعمال نہیں کئے۔ نجانے پاکستان کو بھارت کی کاروباری دوستی کے لئے کیوں بے قراری ہے۔ بھارت نے ہمیشہ دوستانہ بے قراریوں کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا۔
آرمی چیف جنرل کیانی ماڈل ٹاﺅن لاہور بغیر کسی پروٹوکول کے نواز شریف سے ملنے کے لئے تشریف لائے انہیں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی اور بریفنگ بھی دی۔ جمہوریت کے لئے جنرل کیانی کی خدمات ہمیشہ قابل ذکر ہیں۔ نوائے وقت کے کالم نگار چودھری اکرم نے لکھا ہے کہ جنرل کیانی نے گوادر پورٹ کے حوالے سے نواز شریف کو بریف کیا اور بھارت کے ساتھ کاروباری روابط اور دوستانہ معاملات کے لئے بھی برابری اور وقار کا رویہ اپنانے کی بات کی۔ وقار کا تعلق اعتبار کے ساتھ بہت زیادہ ہے۔ پاکستان بھارت تعلقات میں ایک دوسرے پر عدم اعتماد بڑا کمپلیکس ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب چین خطے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے بھرپور انداز میں آمادہ ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ حالات سے غافل یا لاتعلق بالکل نہ تھا۔ چین کی نظر خطے کی صورت پر بڑی گہری ہے۔
ایک دفعہ پہلے بھی پاکستان میں چینی وزیراعظم نے کہا تھا کہ دور کے ”دوست“ سے قریب کا ہمسایہ اچھا ہوتا ہے۔ اور چین بہت اچھا ہمسایہ ہے۔ خدا بھارت کو بھی برا ہمسایہ بننے سے بچائے۔ کشمیر اور پانی کے مسائل کے علاوہ بھی کچھ دشواریاں ہیں۔ وہ حل کئے بغیر کسی بھی دوستی کا تصور ایسی تصویر ہے جو دیکھنے کے قابل نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور کچھ سیاستدانوں نے یہ تصویر اپنے بٹوے میں رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ سے قطع تعلقی تو بالکل نہیں ہونا چاہئے مگر اس سے اپنی جان چھڑانے کا طریقہ یہ ہے کہ چین کے ساتھ اپنی دوستی کو زیادہ باعمل بنایا جائے۔ بھارت کی بلیک میلنگ سے بھی نجات ممکن ہے۔ ہمارے سارے پراجیکٹ چین کی مدد سے مکمل ہوئے ہیں۔ امریکہ نے ہمارے حکمرانوں کو ڈالر کی بھیک دی جس نے ہمیں کنگال کر دیا۔ ڈالر حکمرانوں کی جیب سے ہوتے ہوئے واپس امریکی بینکوں میں چلے گئے۔
پہلے چینی وزیراعظم چو این لائی پاکستان آئے۔ لاہور میں انہیں شاہی قلعہ شاہی مسجد دکھائی گئی۔ انہوں نے خود فرمائش کر کے بیکو انڈسٹری دیکھی۔ اور وزٹر بک میں لکھا کہ اگر ایسی دو فیکٹریاں میرے ملک میں ہوں تو چائنہ کی قسمت بدل دوں گا۔ اور چین کی واقعی تقدیر بدل گئی۔ ہمارے پاس بیکو انڈسٹری بھی نہ رہی۔ اب ہماری فیکٹریاں گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بند ہو رہی ہیں اور ہم ایک بدقسمت قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ وزٹر بک آج بھی ہمارے سینئر دوست آخری جی ایم بیکو انڈسٹری شوکت جنجوعہ کے پاس موجود ہے۔
آخر میں ایک حدیث رسول کریم”علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔“ اس میں دوری کے معانی بھی ہیں مگر آج کے حالات میں اس کے اندر کئی معانی ہیں۔ ہمیں سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے لئے چین کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ بتایا گیا ہے کہ سائنس کا متبادل لفظ عربی میں علم ہے اور علم حاصل کرنے کی بڑی تاکید قرآن مجید میں ہے۔