غداری کیس : عدالت فیصلہ ضرور دیگی‘ مشرف کو سزائے موت یا عمر قید ہو سکتی ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نیٹ نیوز + بی بی سی + ثناءنیوز) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرے یا نہ کرے لیکن وہ ان کے خلاف آئین توڑنے پر غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ ضرور دے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئین توڑنے اور ایمرجنسی کے نفاذ پر آئین کے آرٹیکل 6 کی تشریح پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے سے متعلق دائر درخواستوں میں ہی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کسی بھی آمر کے خلاف کارروائی سے متعلق آئین کی اس شق کی تشریح نہیں کی گئی۔ بی بی سی نے قانونی ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران بنچ کی جانب سے جو ریمارکس آئے ہیں اس سے ان درخواستوں پر متوقع فیصلوں کی کسی حد تک نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ فیصلے کیا ہوسکتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ آرمی چیف سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہوتا ہے اور وہ کیسے اپنے افسر کو بتائے بغیر ایمرجنسی کا نفاذ کرسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان درخواستوں کی مد میں پرویز مشرف نے اپنے تحریری جواب میں یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے ایمرجسنی کے نفاذ سے پہلے کور کمانڈرز سے مشاورت کی تھی۔ درخواست گزار مولوی اقبال حیدر کے وکیل اے کے ڈوگر نے کہا کہ اخبارات میں یہ خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ پرویز مشرف ملک سے جانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس پر پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے عدالت کو بتایا کہ ان کی بدھ کی رات کو اپنے موکل سے ملاقات ہوئی تھی انہوں نے کہا ہے کہ وہ ملک میں ہی رہ کر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ نگران حکومت تو پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتی اب دیکھنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ان کے موکل کے خلاف کارروائی کرے گی یا نہیں کیونکہ آئین توڑنے والے کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سابق منتخب حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ا±نہوں نے کہا کہ کوئی حکومت اس ضمن میں اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرے یا نہ کرے لیکن عدالت سپریم کورٹ کے 31 جولائی 2009 کے چودہ رکنی بینچ کے فیصلے سے باہر نہیں جاسکتی جس میں تین نومبر 2007 کے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل چھ کے تحت آئین توڑنے کی سزا موت ہے یا عمر قید اس کا فیصلہ بھی انہی درخواستوں کی سماعت کے دوران ہوگا۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ جب تک سابق صدر کے خلاف ٹرائل نہیں ہوگا اس وقت تک سزا کا تعین نہیں ہوسکے گا۔ ثناءنیوز کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آرمی چیف سیکرٹری دفاع کے تحت افسر ہوتا ہے پرویز مشرف نے کن اختیارات کے تحت تین نومبر 2007کا اقدام کیا آرٹیکل 6کی تشریح پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ کے دوران ہی ہو گی اتنا بڑا سانحہ ہو گیا وفاقی حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ خصوصی عدالت میں چلے گا۔ وفاقی حکومت جس عدالت میں ریفرنس بھیجے گی وہی فیصلہ کرے گی۔ درخواست گزار کے وکیل اے کے ڈوگر نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے حکم دے۔ عدالت نے اے کے ڈوگر کو یہ ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر بھی دلائل جاری رکھیں۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ پینل کورٹ میں ہی چلے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ مقدمہ کے حقائق دیکھے جائیں تو ٹرائل کی ضرورت ہو گی۔ وزارت قانون نے کہا ہے کہ وزارت داخلہ سے پوچھیں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا وفاق کی طرف سے ایک لفظ بھی سامنے نہیںآ یا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حقائق سے دیکھنا ہے کہ پرویز مشرف کے پاس اپنے دفاع کیلئے کیا ہے۔ آرمی چیف خود سے کیسے اختیارات حاصل کر سکتا ہے مشرف کے خلاف کارروائی کیلئے سابقہ حکومت نے کوئی پیش رفت نہیں کی آج تک آرٹیکل چھ کی تشریح نہیں ہوئی پرویز مشرف کے خلاف کیس میں ہی آرٹیکل چھ کی تشریح ہو گی۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ کونسے ایسے اختیارات تھے جن کے تحت پرویز مشرف نے تین نومبر 2007کا اقدام کیا۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ 14رکنی بینچ فیصلہ دے چکا اس کی چھان بین ٹرائل کورٹ کیسے کرے گی۔ اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ عدالت کچھ بھی نہ کرے صرف اتنا کہہ دے آرٹیکل چھ کے تحت کاروائی کی جائے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے اے کے ڈوگر سے کہا کہ اس نقطہ پر مطمئن کریں کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ کو ہدایت دے سکتی ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ آج تک وفاقی حکومت نے اس معاملے پر غور ہی نہیں کیا۔ پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف پی سی او جاری کیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کو ٹرائل کے تقاضے مکمل کرنا ہوں گے ۔اے کے ڈوگر نے کہا کہ عدالت وفاق کو غداری کا مقدمہ درج کرنے کیلئے حکم دے۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ تین نومبر کا پرویز مشرف کا بطور آرمی چیف اقدام دو جمع دو کے مصداق سمجھ آتا ہے کیا پرویز مشرف نے ایمرجنسی کے نفاذ میں ساتھیوں سے مشاورت کا تحریری ثبوت دیا؟ اس پر اے کے ڈوگر نے کہا کہ پرویز مشرف نے ساتھی جرنیلوں سے مشاورت کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اتنا بڑاسانحہ ہو گیا وزارت داخلہ اور قانون خاموش ہیں۔ اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ صرف وفاقی حکومت کا غداری کا مقدمہ درج کرنا آئین سے متصادم ہے 1976کے سنگین غداری ایکٹ کی دفعہ تین آئین سے متصادم ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ چیزوں کو علیحدہ سے نہیں بلکہ پورے آئین کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے سیکشن تین کے تحت مجاز افسر نے درخواست ہی دائر نہیں کرنی بلکہ عدالت بھی بننی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا آرٹیکل چھ کے تحت تحقیقات کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وزارت داخلہ سے پوچھیں۔وہ ٹال مٹول سے کام لیتی ہے اے کے ڈوگر نے جسٹس جواد ایس خواجہ سے کہا کہ آپ کی مسکراہٹ میرے لئے باعث راحت ہے اس پر جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں پر ہماری مسکراہٹ بجلی کی طرح گرتی ہے عدالت نے کیس کی مزیدسماعت تین جون تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ نے قرار دےا کہ پرویز مشرف کو سزاہونے تک مجرم یا غداری کا مرتکب قرار نہیں دیا جا سکتا عدالت کیس کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے گی آرٹیکل 6 کے حوالے سے یہ مقدمہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے، اس میں سخت ترین سزا ، سزائے موت یا عمر قید ہو سکتی ہے، کیس میں خصوصی عدالت قائم کرنے کی استدعا نہیں کی گئی فریقین کی جانب سے آرٹیکل 6 کی تشریح نہیں ہو رہی جسٹس جوا د ایس خواجہ نے کہا کہ تین نومبر کا اقدام آرمی چیف کا ایک فرمان تھا جو دوجمع دوکی طرح بالکل واضح ہے انہوں نے آرمی چیف کی حیثیت سے ایمرجنسی لگائی جو سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہوتاہے عدالت کو بتایا جائے کہ کیا پرویز مشرف نے ایمرجنسی کے نفاذ میں ساتھیوں سے مشاورت کا کوئی تحریری ثبوت عدالت کوپیش کیا ہے ؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل اے کے ڈوگر نے بتایا کہ سابق صدرنے اس حوالے سے کوئی تحریری ثبوت نہیں دیا تاہم انہوں نے 3 نومبرکے اقدام کے حوالے سے اگر اپنے ساتھی جرنیلوں سے مشاورت کی تھی تو بھی عدالت عظمٰی نے اپنے فیصلے میں ان کوذمہ دار قرار نہیں دیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ عدالت پہلے دیکھے گی کہ کیا درخواست گزاروں کو ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ تین نومبر کو اتنا بڑا سانحہ ہوا جس کا کسی نے نوٹس نہیں لیا داخلہ اور قانون کی وزارتیں بھی خاموش رہیں ہمیں بتایا جائے کہ عدالت کی معاونت کے لئے ہم کیا ڈائریکشن دے دیں، اے کے ڈوگر نے کہا 1976 کے سنگین غداری ایکٹ کی دفعہ تین کے تحت صرف وفاقی حکومت کی جانب سے غداری کا مقدمہ درج کرانا آئین سے متصادم ہے اگر ملک کا چیف ایگزیکٹو ہی مجرم ہو تو شکایت کس کے خلاف درج کی جائے؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص ملک کا آئین تو دے اور عدالت خاموش رہے۔ عدالت نے پاکستانی آئین اس کی دفعات اور سیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیتا ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو کل عدالت پر بھی انگلیاں اٹھیں گی۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ ہم بھی آئین وقانون کے مطابق فیصلہ دیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا سیکشن تین کے تحت مجاز افسر نے صرف درخواست ائر نہیں کرنی ہوتی بلکہ اسے عدالت کی ذمہ داری بھی ادا کرنا ہو تی ہے، چیزوں کو علیحدہ سے نہیں بلکہ پورے آئین کی روشنی میں جانچنا چاہئے1973ءکا آئین یہ بنیاد فراہم کرتا ہے کہ سنگین غداری کے مرتکب فرد کے خلاف کارروائی کیسے کرنی ہے اور اسے کس طرح سزا دی جائے ملزم کو ریلیف کس طرح دیا جائے اور ریاست کا کیا کردار ہو گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نگران حکومت نے اس کیس کے بارے میں کوئی جواب نہیں دیا وہ انتخابات کے انتظامات میں مصروف تھی اب شاید تقرراورتبادلوں میں لگی ہوئی ہے مشرف کے وکلاءنے میرے متعصب ہونے کی بات کی ہے حالانکہ ہمارے کسی کے ساتھ ذاتیات کے معاملات نہیں ہوتے ورنہ میں بنچ سے الگ ہونے والا پہلا شحض ہوتا۔ انہوں نے کہا آرٹیکل 6 کے حوالے سے یہ اپنی نہوعیت کا پہلا مقدمہ ہے جس میں سخت ترین سزا سزائے موت یا عمرقید ہو سکتی ہے، مگر کیا اس میں آرٹیکل 10 کے تقاضے پورے کئے گئے ہیں اسے بھی دیکھنا عدالت کا کام ہے۔ ججز کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ مشرف کے وکلا کا موقف ہے کہ سپریم اور سندھ ہائی کورٹ کے کیس میں مشرف کو فریق نہیں بنایا گیا پرویز مشرف کے وکیل قمرافضل نے کہا میں نے جج کے متعصب ہونے کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ عدالت کو تحریری طور پر دیا ہے اور اپنے اسی بیان پر قائم ہوں۔