مسلم لیگ ن کے چوہدری نثار اور ”چوہدری“
مسلم لیگ ن میں بھی چودھری صاحبان بہت ہیں۔ اس میں پہلے چودھری برادران بھی تھے۔ تب بھی یہ مسلم لیگ ن تھی۔ اب مسلم لیگ ن میں چودھری سے مراد چودھری نثار ہے۔ اقبال ظفر جھگڑا ویسے چودھری ہیں۔ راجہ ظفرالحق بھی ایسے ہی چودھری ہیں۔ اور بھی چودھری صاحبان چودھری برادران کے علاوہ ہیں۔ مسلم لیگ ن کے پارٹی لیڈرنواز شریف ہیں۔ مسلم لیگ ن سے مراد نواز شریف ہے مگر چودھری نثار کہتے ہیں مسلم لیگ ن سے مراد نثار ہے۔ مگر حیرت یہ ہے کہ وہ مرکزی آدمی ہیں اور پنجاب اسمبلی کے لئے الیکشن کیوں لڑا اور شیر کی بجائے گائے کے نشان پر کیوں لڑا۔ وہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف پنجاب کے مستقل وزیراعلیٰ ہیں اور چودھری نثار شہباز شریف کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ پر وہ جیت بھی گئے۔ چکری اور ٹیکسلا جو اس کی اپنی سیٹ ہے۔ غلام سرور نے اسے قومی اسمبلی کے لئے وہاں سے محمد صدیق نے پنجاب اسمبلی کے لئے ہرایا ہے۔ غلام سرور خان عوامی آدمی ہیں اور اپنے علاقے میں بہت پسندیدہ شخصیت ہیں۔ چودھری نثار کے حوالے سے میں بات کرتا رہتا ہوں۔ وہ موقع دیتے ہیں کے ان کے بارے میں بات ہو۔ چودھری نثار کلر سیداں میں کہا کہ ٹیکسلا کے لوگ بکاﺅ مال ہیں۔ جنہوں نے مجھے ہرا دیا ہے۔ نواز شریف کے ایک جانثار اورنگ زیب نے ٹیکسلا سے فون کیا ہے کہ میں نے خاقان عباسی کو ووٹ دیا ہے۔ وہ جیت گئے ہیں مگر میں چودھری نثار کے ہارنے پر خوش ہوا ہوں۔ غلام سرور کو جیتنے کی مبارک ہے کہ اس نے چودھری نثار کو ہرا دیا ہے۔ حنیف عباسی نے کہا ہے کہ مجھے چودھری نثار نے ہروایا ہے۔
میانوالی کے پٹھانوں میں جو کھڑپینچ ہو اسے سردار کہتے ہیں مگر جو فیملی سیاست میں جوڑ توڑ میں ماہر ہو چھوٹی بات پر جھگڑا کرا دیتا ہو اسے چودھری صاحب کہتے ہیں۔ اقبال ظفر جھگڑا بہت پرانے سیاستدان ہیں۔ وہ جھگڑالو تو نہیں ہیں مگر کوئی ان کا بڑا جھگڑالو ہو گا۔ ممکن ہے وہ جھگڑے ختم کرانے والا ہو۔ لندن میں میثاق جمہوریت کے بعد نواز شریف نے اے پی سی بلائی تو پاکستان میں ایک انچارج اقبال ظفر جھگڑا تھے۔ اقبال ظفر جھگڑا میں کچھ تو ہے کہ وہ نواز شریف کے بہت قریب ہیں بلکہ چودھری نثار کی طرح ”عنقریب“ ہیں۔ چودھری نثار نے تو نواز شریف کو نقصان بھی پہنچایا اقبال ظفر جھگڑا نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا مگر نقصان بھی نہیں پہنچایا۔ وہ ہمیشہ ہار جاتے ہیں مگر ہر دفعہ انہیں ٹکٹ مل جاتا ہے۔ یہ جھگڑا صاحب کا کریڈٹ ہے۔ مگر نواز شریف کی زیادہ مہربانی ہے۔ حتیٰ کہ وہ سینٹ کے لئے بھی ہار گئے جبکہ یہ خواتین کی مخصوص نشستوں کی طرح ہوتی ہیں۔
اقبال ظفر جھگڑا نے کہا ہے کہ ہم سینٹ میں فارورڈ بلاک بنائیں۔ سینٹ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے۔ مسلم لیگ ن والوں کو فارورڈ بلاک بنانے کی عادت ہے۔ پنجاب حکومت بھی مسلم لیگ ق کے فارورڈ بلاک پر آسانی سے چلتی رہی۔ پنجاب اسمبلی میں فارورڈ بلاک والوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ انہیں 2013ءکے الیکشن میں ٹکٹ بھی نہ ملا۔ اب سینٹ میں پیپلز پارٹی والے کیا کرتے ہیں۔ یہ بات اقبال ظفر جھگڑا نے نجانے کیوں کی ہے جبکہ ایوان صدر میں صدر زرداری سے نواز شریف کی ملاقات خوشگوار رہی ہے مگر سینٹ میں چینی وزیراعظم کے خطاب کے موقع پر وی وی آئی پیز کے لئے دعوت ناموں میں سب سے آخر میں نواز شریف کو رکھا گیا ہے۔ معاملات حکومت کو چلانے کے لئے نواز شریف نے تحمل اور تدبر کی پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ پھر مسلم لیگ ن کے چودھری صاحبان حالات بگاڑنے میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی نواز شریف کے حمایت میں عمران خان کی مخالفت کر رہے ہیں۔
سنا ہے کہ اقبال ظفر جھگڑا کو صوبہ خیبر پی کے کا گورنر بنانے کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ امیر مقام کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ کیا دونوں کی خدمات ایک جیسی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ جو بھی اسمبلی کے لئے ہار جاتا ہے اسے سینٹ میں بھجوا دیا جاتا ہے یا کسی اور عہدے پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ یہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔ جسے عوام نے مسترد کر دیا ہے اسے صرف ذاتی پسندیدگی کی بنیاد پر عوام کا نمائندہ بنانا مناسب نہیں ہے۔ گورنر کا عہدہ سیاسی نہیں اسے صدر زرداری نے سیاسی بنانے کی کوشش کی۔ سنا ہے پنجاب کے گورنر کے لئے ایک نام عطاالحق قاسمی کا بھی ہے۔ وہ ایک بڑے صحافی ہیں۔ صحافی وزیراعلیٰ بن سکتا ہے خواہ نگران ہی ہو۔ تو گورنر بھی بن سکتا ہے۔ عارف نظامی کے حوالے سے تو یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔
راجہ ظفرالحق بہت محترم سیاستدان ہیں۔ وہ جنرل ضیاءکے اوپننگ بیٹسمین تھے۔ ویسے بھی جنرل ضیاءکی کرکٹ ڈپلومیسی بہت معروف ہوئی تھی۔ بھارت کے لئے نواز شریف کی دوستانہ پالیسی میں کرکٹ ڈپلومیسی بڑی مفید ہو گی۔ یہ رحمن ملک اور گیلانی جیسی کرکٹ ڈپلومیسی نہ ہو۔ وہ بھارت میں اپنی کرکٹ ٹیم کو ہروانے کے لئے گئے تھے۔ بھارت ایسی دوستی پاکستان سے چاہتا ہے۔ یہ کوڑا کرکٹ ڈپلومیسی ہے۔ نواز شریف جلد بازی نہ کریں۔ احتیاط سے حکومتی کرکٹ کھیلیں۔
راجہ ظفرالحق نے اپنی سیٹ پر اپنے بیٹے کی بجائے انجم عقیل کو ٹکٹ دلوایا۔ وہ ہار گیا۔ لوگوں کو یاد تھا کہ انجم عقیل نے گھپلے کئے تھے۔ انہیں تھانہ حوالات سے ان کے ساتھی زبردستی چھڑوا کے لے گئے۔ وہ ایم این اے تھے۔ شاید اس کے لئے بھی ٹکٹ راجہ صاحب نے دلوایا تھا۔ اب راجہ صاحب انہیں سینٹ کا ممبر بنوائیں گے۔
مسلم لیگ ن کے اصلی چودھری صاحب نے کہا کہ میں صدر زرداری سے حلف نہیں لوں گا۔ ان کے پارٹی لیڈر نواز شریف نے کہا ہے کہ میں صدر زرداری سے حلف لوں گا۔ چودھری نثار نے صدر جنرل مشرف سے حلف لے لیا تھا۔ انہیں آرمی چیف بھی چودھری نثار نے بنوایا تھا۔ ان کا رابطہ جنرل مشرف سے اب بھی ہے؟ اور وہ خاموشی سے بیرون ملک چلے جائیں گے۔ جب ماڈل ٹاﺅن میں جنرل کیانی نواز شریف کو ملنے آئے تو یہ گھر شہباز شریف کا ہے اور جنرل کیانی کے ساتھ چودھری نثار بھی تھے۔ ان کی باڈی لینگویج بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ اس کا اندازہ دیکھنے والوں نے لگا لیا ہو گا۔
بطور سینئر وزیر وہ صدر زرداری سے حلف نہیں لیں گے تو کیا گورنر پنجاب سے حلف لینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یکلخت صدر زرداری سے ناراضگی کی وجہ کیا ہے؟ وہ چینی وزیراعظم کے ظہرانے میں بھی ایوان صدر نہیں گئے تھے۔ پارٹی لیڈر نواز شریف ایوان صدر گئے۔ چینی وزیراعظم کے علاوہ صدر زرداری سے بھی طویل ملاقات کی۔ اس کا مطلب ہے کہ خدانخواستہ چودھری نثار نواز شریف سے بڑا لیڈر ہے۔ چودھری صاحب کی عمران سے درپردہ کیا انڈر سٹینڈنگ ہے کہ عمران نے بھی صدر زرداری سے حلف نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ لوگ جمہوریت اور الیکشن کی بات بھی کرتے ہیں۔ صدر زرداری سے اختلافات اپنی جگہ مگر وہ ایک منتخب صدر ہیں۔ کیا چودھری صاحب کا ارادہ یہ ہے کہ اپنا صدر لایا جائے اور وہ خود چودھری نثار ہوں۔ مگر چودھری نثار کی ٹیڑھی نظر پنجاب پر ہے۔ راولپنڈی سے مسز ارشاد مسلم لیگی ورکر ہیں۔ انہوں نے تحریک جمہوریت میں کلثوم نواز کا پنڈی میں جلسہ بھی کرایا تھا۔ وہ چودھری نثار کو مسلم لیگ ن کے لئے خطرہ سمجھتی ہیں۔ ایک تقریر میں چودھری نثار نے کہا میں پانچ برس تک اپنے مخالفین کے سینوں پر مونگ دلوں گا۔ جبکہ نواز شریف اور شہباز شریف کہتے ہیں کہ ہم سب کے ساتھ مل کر چلیں گے۔